بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت کا شرعی حکم


سوال

میں نے زرگر کو کاروبار  کے لیے 300000 روپے دیے ہیں، ہر تین ماہ کے بعد حساب کرتے ہیں، جتنا منافع ہو، وہ دو حصوں پر تقسیم کرتے ہیں، اسی طرح نقصان بھی، لیکن اپنے کاروبار کا مجھے علم نہیں کہ کس طرح کماتے ہیں، بہرحال سونے کا لینا اور بیچنا ہے، تین ماہ بعد کبھی نو ہزار (9000) کبھی بارہ ہزار (12000) کبھی آٹھ ہزار (8000) دیتے ہیں، تو یہ کاروبار میرے لیے کیسا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ آپ کی طرف سے زرگر کو جو تین لاکھ (300000) روپے دیے گئے ہیں، اگر وہ اس کے ذریعے جائز کاروبار کرکے ماہانہ منافع فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرتے ہیں، تو آپ اور زرگر کے درمیان مضاربت کا معاملہ ہے، اور شریعت نے مضاربت کے ذریعہ سرمایہ کاری اور کاروبار کی اجازت دی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بھی مضابہ کا معاملہ کیا ہے، اگر آپ کی طرف سے مضارب (کاروبار کرنے والے) کو کسی مخصوص  کاروبار وغیرہ کا پابند نہیں بنایا گیا ہے تو اس کے لیے اپنے حساب سے کسی بھی طرح کے جائز کاروبار کرنے کا اختیار ہے جس میں ضرر نہ ہو۔

آپ کو کاروبار کی تحقیق کا حق حاصل ہے۔ اگر تحقیق کے بعد معلوم ہو کہ واقعی سونے کی خرید و فروخت سے نفع حاصل ہوتا ہے تو  کاروبار کو جاری رکھیں اور اگر یوں محسوس ہو کہ محض پیسوں کے عوض نفع دیا جارہاہے اور حقیقی کاروبار کوئی نہیں ہے تو رقم  نکلوالیجیے۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر نقصان ہو تو اولاً منافع میں سے پورا کیا جائے گا، اور خدانخواستہ اتنا نقصان ہوا کہ اس کے ازالے میں نفع بھی ختم ہوگیا اور پھر بھی نقصان باقی ہو تو اس کا ازالہ سرمائے سے کیا جائے گا، اس صورت میں کاروبار کرنے والے کو کچھ نہیں ملے گا، اس کا نقصان یہی ہوگا کہ اسے کی محنت رائیگاں جائے گی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(أما) الأول، فالقياس أنه لا يجوز؛ لأنه استئجار بأجر مجهول بل بأجر معدوم، ولعمل مجهول، لكنا تركنا القياس بالكتاب العزيز والسنة والإجماع.

(أما) الكتاب الكريم فقوله عز شأنه {وآخرون يضربون في الأرض يبتغون من فضل الله} [المزمل: 20] والمضارب يضرب في الأرض يبتغي من فضل الله عز وجل وقوله سبحانه وتعالى: {فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله} [الجمعة: 10] وقوله تعالى: {ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم}[البقرة: 198]

(وأما) السنة، فما روي عن ابن عباس - رضي الله عنهما - أنه قال: «كان سيدنا العباس بن عبد المطلب إذا دفع المال مضاربة، اشترط على صاحبه أن لايسلك به بحرًا ولاينزل به واديًا، ولايشتري به دابة ذات كبد رطبة، فإن فعل ذلك ضمن فبلغ شرطه رسول الله صلى الله عليه وسلم فأجاز شرطه» وكذا بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يتعاقدون المضاربة فلم ينكر عليهم وذلك تقرير لهم على ذلك؛ والتقرير أحد وجوه السنة.

(وأما) الإجماع، فإنه روي عن جماعة من الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - أنهم دفعوا مال اليتيم، مضاربة منهم سيدنا عمر وسيدنا عثمان وسيدنا علي وعبد الله بن مسعود وعبد الله بن عمر وعبيد الله بن عمر وسيدتنا عائشة - رضي الله عنهم - ولم ينقل أنه أنكر عليهم من أقرانهم أحد، ومثله يكون إجماعًا.

وروي أن عبد الله وعبيد الله ابني سيدنا عمر قدما العراق وأبو موسى الأشعري أمير بها فقال لهما: لو كان عندي فضل لأكرمتكما، ولكن عندي مال لبيت المال أدفعه إليكما، فابتاعا به متاعًا واحملاه إلى المدينة وبيعاه، وادفعا ثمنه إلى أمير المؤمنين فلما قدما المدينة قال لهما سيدنا عمر - رضي الله عنه -: هذا مال المسلمين فاجعلا ربحه لهم فسكت عبد الله، وقال عبيد الله: ليس لك ذلك، لو هلك منا لضمنا فقال بعض الصحابة: يا أمير المؤمنين، اجعلهما كالمضاربين في المال، لهما النصف ولبيت المال النصف فرضي به سيدنا عمر - رضي الله عنه - وعلى هذا تعامل الناس من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا في سائر الأعصار من غير إنكار من أحد، وإجماع أهل كل عصر حجة، فترك به القياس.

(كتاب المضاربة ، ج:6 ص:79 ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويملك المضارب في المطلقة) التي لم تقيد بمكان أو زمان أو نوع (البيع) ولو فاسدانقد ونسيئة متعارفة، والشراء والتوكيل بهما، والسفر برا وبحرا) ولو دفع له المال في بلد على الظاهر (والإبضاع) أي دفع المال بضاعة (ولو لرب المال ولا تفسد به) المضاربة كما يجيء (و) يملك (الإيداع والرهن والارتهان والإجارة والاستئجار فلو استأجر أرضا بيضاء ليزرعها أو يغرسها جاز) ظهيرية (والاحتيال) أي قبول الحوالة (بالثمن مطلقا) على الأيسر والأعسر؛ لأن كل ذلك من صنيع التجار...وليس له أن يعمل بما فيه ضرر ولا ما لا يعمله التجار".

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:649، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204201142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں