بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب کا ربّ المال سے دکان کا کرایہ لینے کا حکم


سوال

محمد امین جنرل سٹور کی دکان کھولنے کا خواہشمند ہے اپنے اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے دکان اپنے ذاتی پیسوں سے تعمیر کی دکان تیار ہے، بس سامان لانے کی دیر ہے مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں انہوں نے خلیل الرحمٰن سےمثلاً پانچ لاکھ روپےلئے،  اور خلیل الرحمن نے شرط یہ  رکھی ہے کہ میں منافع میں آپ کے ساتھ شریک ہوں جتنا منافع ہوگا ہم دونوں آپس میں برابر تقسیم کر دیں گے محمد امین صاحب نے کہا صحیح ہے مگر چونکہ میں نے دکان بنایا ہے جس پر تقریباً ڈھائی تین لاکھ روپے خرچہ کیاہوا ہے، تو میں ہر مہینے کا کرایہ (جو بھی آپس میں طے ہو مثلاً پانچ ہزار روپے) بھی لوں گا، اس پر خلیل الرحمٰن بولے بالکل کرایہ آپ کو ضرور دوں گا،  واضح رہے کہ خلیل الرحمٰن نے صرف پیسے ہی دیئے ہیں بس باقی دکان سنبھالنا بالکلیہ محمد امین صاحب کے ذمہ اب درجِ ذیل سوالات پوچھنے ہیں:

1. اب دریافت طلب امر یہ کہ آیا اس طرح کا معاملہ کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں، اوردکان کا کرایہ محمد امین صاحب لے سکتا ہے یانہیں؟ ۔

2.نفع میں کمی بیشی کا معاملہ باہمی رضا مندی سےطے کرنا درست ہے یا نہیں (کسی بھی وقت) مثلاً محمد امین صاحب کہے کہ میں آپ کو کل نفع کے نصف کے  بجائے تہائی یا مثلاً چوتھائی دوں گا،  اگرچہ پہلے میں نصف پر راضی ہوا تھا۔

3.خدانخواستہ اگر نقصان ہوجائے یہ محمد امین کو برداشت کرنا پڑے گا یا خلیل الرحمٰن صاحب کو یا دونوں کو؟اورنقصان کی شرح کس پر کتنی عائد ہوگی ؟

4.کیا مذکورین میں سے کوئی ایک خود کو نقصان سے بری کر سکتا ہے یا نہیں؟

5.کیا مدت کی تعیین کرنا لازم ہے، وضاحت سے تحریر کیجئے۔

6.اگر کسی وقت دونوں حضرات کاروبار ختم کرنا چاہیں تو ہر ایک کو کیا ملے گا مثلاً محمد امین کہے کہ میں آج کے بعد آپ کو نفع نہیں دوں گا تو صورت میں ہر ایک دوسرے سے کیا کیا مطالبہ کر سکتا ہے ؟  

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ صورت مضاربت کی ہے،  اور مضاربت میں کسی کے لئے بھی اپنے طے شدہ نفع کے علاوہ الگ سے کرایہ لینا جائز نہیں ہے، چاہے ربّ المال (شریک) اس پر راضی ہی کیوں نہ ہوں؛ اس لیے کہ مضاربت بھی شرکت ہے، اور  ایک شریک کا دوسرے شریک کے لیے اجیر بننا درست نہیں ہے، البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مضارب کا نفع میں  حصّہ باہمی رضامندی سے ربّ المال کے حصّے کے مقابلہ میں کچھ زیادہ مقرر کر لیا جائے۔

2:نفع کا تناسب طے ہوجانے کے بعد درمیان میں منافع بڑھانا یا کم کرنا درست نہیں ہے، تاہم منافع تقسیم ہوجانے کے بعد از سرِّ نو فریقین کی رضامندی سے نفع کا تعیّن کیا جاسکتا ہے۔ 

3:نقصان ہوجانے کی صورت میں اس کو اوّلاً منافع میں سے منہا کیا جائےگا، اگر پورا منافع ہی نقصان میں ختم ہوجائےتو راس المال (سرمایہ) سے پورا کیا جائےگا۔

4: نقصان ہوجانے کے بعد ربّ المال یا مضارب میں سے کوئی اپنے آپ کو نقصان سے بری نہیں کرسکتا۔

5:مضاربت میں مدّت کی تعیین کرنا ضروری نہیں ہے، منافع حاصل ہونے کے بعد یہ عقد  ختم کیا جاسکتا ہے۔

6: جب مضاربت ختم کرنے کا ارادہ ہو تو اوّلاً ربّ المال کو سرمایہ دیا جائےگا، اس کے بعد مضاربت سے حاصل شدہ منافع طے شدہ تناسب کے حساب سے تقسیم کیاجائےگا۔

فتاویٰ (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر.

(قوله فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد تأمل. (قوله؛ لأنه لا يعمل إلخ) فإن قيل: عدم استحقاقه للأجر على فعل نفسه لا يستلزم عدمه بالنسبة إلى ما وقع لغيره".

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص:60، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت".

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي میں ہے: 

"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد".

(کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج:5،ص:67،ط:المطبعة الكبرى الأميرية )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں