بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارعت میں زمین دار کے حصے پر عشر


سوال

 زید نے بکر کو اپنی زمین کاشت کاری کے لیے دی ہے، طریقہ یہ ہے کہ بکر  اس زمین سے جو کاشت کرے گا اس میں سے  زید کو چوتھا حصہ دے گا ،یعنی 4 من گندم میں سے ایک من گندم زید کو ملے گي ،یہ بات واضح رہے کہ زید اس کاشت کاری کے لیے بکر کو ایک روپے خرچہ بھی نہیں دے گا ،صرف زمین دی ہے ،خرچہ بکر خود کرے گا، اس میں فصل کو پانی دینے کا خرچہ بھی شامل ہے، اب سوال یہ ہے کہ زید کتنا عشر ادا کرے گا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ    زمین عشری ہے   نہ کہ خراجی اور    کاشت کار اپنی  محنت  اور ذاتی خرچے سے زمین کو   سیننچتا  ہے ،تو  مذکورہ زمین کی پیداوار پر نصف عشر  (بیسواں حصہ) یعنی 100کلو میں سے 5 کلو  دینا لازم ہے ،جس کا طریقہ یہ ہے کہ زید پیداوار  کا اپنا  چوتھائی حصہ وصول  کرنے کے بعد اس کا بیسواں حصہ  ادا کرے یا  اگر  دونوں فریق چاہیں تو پہلے کل پیداوار کا بیسواں حصہ الگ کرنے کے بعد بقیہ کا چوتھائی زید  رکھ لے۔

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"وفي المزارعة إن كان البذر من رب الأرض فعليه، ولو من العامل فعليهما بالحصة....(قوله: وفي المزارعة إلخ) قال في النهر ولو دفع الأرض العشرية مزارعة أن البذر من قبل العامل فعلى رب الأرض في قياس قوله لفسادها وقالا في الزرع لصحتها، وقد اشتهر أن الفتوى على الصحة وإن من قبل رب الأرض كان إجماعا. اهـ. ومثله في الخانية والفتح. والحاصل أن العشر عند الإمام على رب الأرض مطلقا وعندهما كذلك لو البذر منه ولو من العامل فعليهما وبه ظهر أن ما ذكره الشارح هو قولهما اقتصر عليه لما علمت من أن الفتوى على قولهما بصحة المزارعة فافهم."

(كتاب الزكاة،‌‌باب العشر،فروع في زكاة العشر،ج2،ص335،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما بيان مقدار الواجب فالكلام في هذا الفصل في موضعين: أحدهما في بيان قدر الواجب من العشر، والثاني في بيان قدر الواجب من الخراج أما الأول فما سقي بماء السماء، أو سقي سيحا ففيه عشر كامل، وما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر، والأصل فيه ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال ما سقته السماء ففيه العشر وما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر."

(كتاب الزكاة،فصل بيان مقدار الواجب من العشر،ج2،ص62،ط:شركة المطبوعات العلمية بمصر)

وو فیہ ایضاً :

"(ومنها) : أن تكون الأرض من جانب، والباقي كله من جانب، وهذا أيضا جائز؛ لأن العامل يصير مستأجرا للأرض لا غير ببعض الخارج الذي هو نماء ملكه وهو البذر."

(كتاب المزارعة،فصل في بيان أنواع المزارعة،ج6،ص179،ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں