بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارعت میں عشر مالک اور مزارع دونوں پر اپنے اپنے حصے کے حساب سے واجب ہو گا۔


سوال

(1)زید نے بکر کو اپنی زمین ٹھیکہ پر دی، اب محصلات یعنی پیداوار کی زکوۃ کس پر ہوگی؟ مثلاً زید نے اپنی زمین بکر کو ایک سال کے لیے ایک لاکھ روپے کے بدلے میں دے دی، بکر نے زمین سے 5 لاکھ روپے نفع اٹھایا، اب پوچھنا یہ ہے کہ زکوۃ کس کے حصے میں ہے اور کون ادا کرے گا؟ 

(2)اسی طرح زید نے اپنی زمین بکر کومثلاً ثلث پر دے دی کہ ایک حصہ میرا ہوگا اور دو حصے آپ کے ہوں گے، باقی کام خرچہ سب کچھ آپ پر ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں زکوۃ کی ادائیگی کس پر ہوگی؟

جواب

1. واضح رہے کہ زمین کی پیداوار میں زکوۃ لازم نہیں ہوتی، بلکہ عشر لازم ہوتا ہے، پھر یہ بھی واضح ہو کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص کو اپنی زمین ٹھیکہ پر دیتا ہے اور دونوں باہمی رضامندی سے اُس کی اجرت طے کر لیتے ہیں، پھر دوسرا آدمی اُس زمین میں محنت کر کے پیداوار حاصل کرتا ہے تو ایسی صورت میں پیداوار حاصل ہونے پر اس پیداوار کا عشر ٹھیکے پر لینے والے کے ذمہ لازم ہو گا، زمین کے مالک کے ذمہ عشر ادا کرنا لازم نہیں ہو گا، تاہم اگر مالکِ زمین کا وصول شدہ اجرت کی رقم تنہا یا دیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچے تو سالانہ اس کی زکوۃ ادا کرنا  لازم ہو گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں زمین کی پیداوار میں سے  عشر ادا کرنے کی ذمہ داری بکر پر ہے، زید پر نہیں۔

  عشر  میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ زرعی زمین ان نہری زمینوں میں  سے ہےجن کا آبیانہ حکومت کے پاس جمع کرنا پڑتا ہے یا  کنویں یا تالاب یا زمین کو  ٹیوب ویل  کے پانی سے سیراب کیا  جاتا ہےتو اس میں عشر    کل پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوگا  اور اگر  یہ زمین بارانی ہے یا نہری ہے مگر  پانی کا خرچہ نہیں ، پانی مفت ہے تو پھر  اس میں عشر  (کل پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا۔

2. مذکورہ صورت میں ہر ایک (مالکِ زمین اور ٹھیکہ دار) اپنے اپنے حصے میں سے عشر ادا کریں گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

''والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا: على المستأجر كمستعير مسلم۔ وفي الحاوي : وبقولهما نأخذ.

(قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه، ۔۔۔۔۔۔ فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد."

(فتاوی شامی،2/ 334، کتاب الزکاة، باب العشر، فروع فی زکوة العشر، ط: سعید)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"سوال: اراضی جو بطورِ مزارعت کاشت کی جاتی ہیں، اس کا عشر مزارع دے یا اس کے مالک زمین کو دینا چاہیے یا مشترکہ؟

جواب: ہر ایک اپنے اپنے حصے میں سے عشر ادا کر دے۔"

(کتاب الزکوۃ، زمین کی پیداوار اور عشر و خراج کا بیان،  جلد:3، صفحہ: 264)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں