بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارعت میں پہلے بیج الگ کرنے کی شرط لگانا شرط فاسد ہے


سوال

ہمارے ہاں آلو ،مٹر کی کاشت ہوتی ہے ،بعض زمین دار اپنی زمین بٹائی پر دیتے ہیں ،اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بیچ ٹریکٹر ،بیل کھاد زمین دار کے ذمہ ہوتے ہیں اور کاشت کار کے ذمہ محض کاشت کاری ہوتی ہے ،کاشت کار کو کبھی پانچواں ،کہیں چوتھا اور کہیں تیسرا حصہ ملتا ہے ،کچھ زمین دار  کل پیداوار سے کاشت کار کا مقررہ حصہ نہیں نکالتے،  بلکہ پہلے کل پیداوار سے جتنا  بیچ کاشت کیا تھا وہ نکالتے ہیں اس کے بعد کاشت کار کا حصہ نکالتے ہیں ،مثلا کل پیداوار اسی کلو آلو کی بوری ہوئی ،اور بیچ دس کلو کی بوری  کاشت کی تھی ،پہلے جتنا بیچ کاشت کیا تھا اس کو نکالتے ہیں پھر ستر کلو بوری سے کاشت کار کو حصہ دیتے ہیں ،اس کی وجہ سے کاشت کار اپنے کافی حصہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔

کہیں کاشت کار کو یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چوتھے یا پانچویں یا تیسرے حصے میں شریک تھے ،لہذا بیچ میں تمہارے حصہ کے بقدر منہا کیا جائے گا یعنی دس کلو بوری بیچ میں پہلے پانچویں حصے کے حساب سے 2 کلو منہا کریں گے ۔

کیا شرعاً اسے ظلم کہا جائے گا یا نہیں ؟کچھ لوگ کہتے ہیں ہمارے یہاں یہ رواج ہے اور شریعت ایسے رواج کی مخالفت نہیں کرتی ہے تو اس توجیہ کی بھی شرعاً وضاحت فرمائیں ؟

جواب

1)واضح رہے کہ مزارعت کے صحیح ہو نے کے لیے پیداوار میں شرکت ضروری ہے ،پس اگر  زمیندار یا کاشت کار اپنے لیے  پیداوار کا معین حصہ طے کر لے یا بیج دینے والا یہ طے کر لے کہ پہلے پیدا وار سے میرا بیج  منہا کیا جائے یا پہلے ٹیکس معین منہا کیا جائے گا  پھر  بقیہ آھا آدھا تقسیم ہو گا   تو چوں کہ یہ شرائط  شرکت کے انقطاع کا سبب بن سکتی  ہیں کہ ہو سکتا ہے  کسی آفت کی وجہ سے کھیتی اتنی ہو جتنا ایک کے لیے متعین کیا تھا یا کھیتی اتنی ہو جتنا بیج ڈالا تھاتو اس صورت میں دوسرا محروم ہو جائے گا،اس لیے اس طرح کی شرائط سے   مزارعت فاسد ہوجاتی ہے ،نیز یہ شرائط  فساد اور جھگڑے کا باعث بھی بن سکتی ہیں  ،اور جو شرط ایسی ہو وہ بھی معاملہ کو فاسد کر دیتی ہے۔

2)نیز یہ بھی واضح رہے کہ شرط فاسد کی وجہ سے مزارعت فاسد ہوجاتی ہے ،مزارعتِ فاسد کا حکم یہ ہے کہ جس کے بیج ہوں گے وہ مستاجر کہلائے گا ،اور دوسرا اجیر کہلائے گا ،اور ساری فصل بیج والے کی ہو گی ،پس اگر بیج دینے والا زمین دار ہے تو کاشت کار اپنی اجرت مثل کا حق دار ہوگا اور اگر بیج دینے والا کاشت کار ہے  تو وہ زمین دار کو اس کی زمین کی اجرت مثل دے گا ۔

3)اجرت مثل سے مراد وہ اجرت ہے جو اجرت اس جیسے کام پر عام طور پر معاشرے میں دی جاتی ہے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں زمین دار وں کا کاشت کاروں سے کہنا کہ   پیداوار سے پہلے بیج  منہا کیا جائے گا ،یا تمہارے حصہ کے بقدر بیج کو منہا  کیا جائے گا اس کے بعد  پیداوارطے کردہ  معاہدے کے تحت تقسیم ہوگی شرعاً یہ شرط فاسد ہے ،اور اس کی وجہ سے مزارعت فاسد ہوجاتی ہے ،اگر کسی نے ایسا کیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ مکمل فصل بیج والے( مسئلہ ہذا میں زمین دار) کی ہو اور کاشت کار اپنی اجرت مثل کا مستحق ہو ،مزارعتِ فاسد میں  شرعی سقم کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

مزارعت کے صحت کے لیے ضروری ہے مکمل پیداور   میں سے کاشت کار کو طے کردہ فیصد کے حساب سے دیا  جائے۔

بعض لوگوں کا یہ کہنا " ہمارے یہاں یہ رواج ہے اور شریعت ایسے رواج کی مخالفت نہیں کرتی ہے"تو شرعاً ان کی یہ بات قطعاً غیر شرعی ہے ،ظالمانہ اور غیر شرعی رواج کی شریعت  اجازت نہیں دیتی ہے۔

نیز مزارعت کی  زمین ،عمل ،بیل یا ٹریکٹراور بیج کے اعتبار سے مندرجہ ذیل صورتیں جائز ہیں:

1۔زمین ایک کی ہو اور بیج ،بیل اور محنت دوسرے کی ہو۔

2۔زمین ، بیل یا ٹریکٹر اور بیج ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی ہو۔

3۔زمین اور بیج ایک کا ہو اور بیل ،ٹریکٹر اورمحنت دوسرے کی ہو۔

اگر مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو مزارعت فاسد ہوجائے گی۔

الدر المختار  مع الرد میں ہے:

"(و) بشرط (التخلية بين الأرض) ولو مع البذر (والعامل و) بشرط (الشركة في الخارج)ثم فرع على الأخير بقوله (فتبطل إن شرط لأحدهما قفزان مسماة أو ما يخرج من موضع معين، أو رفع) رب البذر (بذره أو رفع الخراج الموظف وتنصيف الباقي)بعد رفعه وفی الرد :(قوله فتبطل) أي تفسد كما يفيده ما نقلناه آنفا عن الهداية (قوله أو رفع) بالرفع في الموضعين عطفا على قفزان المرفوع على النيابة عن الفاعل لشرط المذكور فافهم (قوله وتنصيف الباقي) بالرفع معمول لشرط أيضا.قال ح: وهو راجع للمسائل الأربع ا. هـ.وإنما فسدت فيها؛ لأنها قد تؤدي إلى قطع الشركة في الخارج، فإنه يحتمل أن لا تخرج الأرض إلا ذلك المشروط (قوله بعد رفعه) أي رفع ذلك المشروط والظروف متعلق بالباقي فافهم."

(کتاب المزارعۃ،ج:6،ص:276،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(متى فسدت، فالخارج لرب البذر) ؛ لأنه نماء ملكه (و) يكون للآخر أجر مثل عمله أو أرضه ولا يزاد على (الشرط) وبالغا ما بلغ عند محمد (وإن لم يخرج شيء) في الفاسدة (فإن كان البذر من قبل العامل، فعليه أجر مثل الأرض والبقر، وإن كان من قبل رب الأرض، فعليه أجر مثل العامل) حاوي"

(کتاب المزارعۃ،ج:6،ص:279،ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"صحت (لو كان الأرض والبذر لزيد والبقر والعمل للآخر) أو الأرض له والباقي للآخر (أو العمل له والباقي للآخر) فهذه الثلاثة جائزة (وبطلت) في أربعة أوجه (لو كان الأرض والبقر لزيد، أو البقر والبذر له والآخران للآخر) أو البقر أو البذر له (والباقي للآخر) ، فهي بالتقسيم العقلي سبعة أوجه؛ لأنه إذا كان من أحدهما أحدها والثلاثة من الآخر، فهي أربعة، وإذا كان من أحدهما اثنان واثنان من الآخر فهي ثلاثة"

(رد المحتار ،کتاب المزارعۃ ،ج:6،ص:278،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144306100696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں