بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں متعین رقم کی شرط لگانا/ بیوی کی مرضی کے بغیر قرض لینا


سوال

میرے سسر نے بینک میں 8لاکھ جمع کرائے تھے جس سے وہ ہر ماہ 10ہزار پرافٹ لیتے تھے،  اس بات کا علم ہمیں ان کی وفات کے بعد ہوا، اب پیسے ان کے 6 بیٹوں،1بیٹی اور 1ماں میں برابر تقسیم کیے، بعد میں فیصلہ ہوا کہ جب تک امی حیات ہیں پیسے ان کے پاس ہی رہیں گے ،وہ چاہتی تھیں  کہ اس رقم پہ پرافٹ آتا رہے؛ تاکہ ان کو خرچے کا کوئی مسئلہ نہ ہو اور بیٹوں سے  مانگنا نہ پڑے، اس لیے انہوں نے وہ پیسے میرے شوہر کو دے دیے کہ وہ کاروبار میں لگائیں اور اس پہ ہر ماہ 30 ہزار پرافٹ دیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا بیٹے کا ماں کو ایسے پرافٹ دینا سود ہے؟  اگر ہے تو اب کیا صورت ہے پیسے کاروبار سے کیسے نکالے جائیں؟ دوسرا یہ کے اس بات کو لے کر ہمارے تعلقات خراب ہو رہے ہیں، کیا بیوی کی مرضی کے بغیر قرض لے لینا جائز ہے؟

جواب

سائلہ  کے سسر  بینک   میں رقم رکھ کر  جو پرافٹ لیتے تھے وہ سود تھا، اس پر  مرحوم کے لیے استعفار  کریں، اور جو رقم سائلہ کی ساس کے پاس ان کے بچوں نے رکھوائی ہے،  اگر ورثاء سب بالغ عاقل ہیں اور باہم خوشی سے ماں کے پاس یہ رقم رکھی ہے، تو یہ جائز ہے،اس کی حیثیت قرض کی ہوگی، اس کو جائز کاروبار میں لگانا درست ہے،لیکنہر مہینے  پرافٹ کے طور پر تیس ہزار متعین کرکے  معاملہ کرنا ناجائز ہے، منافع  کی تقسیم حاصل شدہ منافع کے فیصد کے اعتبار سے متعین کرنا ضروری ہے ، اس لیے  اس معاملے کو ختم کرکے از سرِ نو  عقد کرنا  ضروری  ہے، اور یوں معاملہ کیا جائے کہ اس رقم سے کاروبار کے نتیجے میں جو نفع حاصل ہوگا اس کا اتنا فیصد آپ کی ساس کا ہوگا اور اتنا فیصد آپ کے شوہر کا۔ 

شرح مختصر الطحاوی میں ہے:

"(ولا تجوز المضاربة على أن لأحدهما دراهم معلومة)".

(شرح مختصر الطحاوي للجصاص: كتاب المضاربة 3/ 367، ط. دار البشائر الإسلامية - ودار السراج، الطبعة : الأولى: 1431 هـ =2010 م)

الدر المختار میں ہے:

"ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت".

(الدر المختار مع حاشية ابن عابدين : كتاب المضاربة 5/ 648، ط. سعيد)

2)      شوہر کےلیے بیوی کی مرضی کے بغیر کسی سے قرض لینا جائز ہے، البتہ بیوی سے اس کی مرضی کے بغیر قرض لینا جائز نہیں۔    

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"ولا يجوز التصرف في ملك الغير بدون إذنه".

(درر الحكام شرح مجلة الاحكام : الكتاب الثاني الإجارة، الباب السابع في وظيفة الآجر والمستأجر وصلاحيتهما بعد العقد،  الفصل الثالث في بيان المواد المتعلقة برد المأجور وإعادته 1/ 679،ط.  دار الجيل،الطبعة: الأولى:1411هـ =1991م)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307102052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں