بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں متعین منافع اور اصل سرمایہ محفوظ رہنے کی شرط لگانا


سوال

میں نے ۲۰۲۰ء میں اپنی ذاتی مالیت تقریباً ۳ لاکھ  سے آٹو پارٹس کا کاروبار شروع کیا ،پھر ایک ماہ کے اندر اس میں مزید لوگوں نے پیسے لگائے،اور اب تقریباً کل ۲۴ لوگوں کی رقم میرے اس کاروبار میں لگی ہوئی ہے،اور کل رقم تقریباً ۶۰ لاکھ روپے بن رہی ہے،جب کہ کام صرف میں کرتا رہا،دیگر شرکاء کے صرف پیسے لگے ہوئے تھے،اور جس شریک سے جتنی رقم لگاتاتھا اس کے ساتھ اس کی لگائی گئی رقم کےحساب سے متیعین رقم کے منافع طے کر لیے جاتے تھے(مثلاً اگر کسی  رقم ۴ لاکھ روپے ہے تو اس کے ساتھ ماہانہ۲۰ ہزار روپے منافع کی بات طے تھی)اور ان میں سے بعض شرکاء کے ساتھ اصل رقم کے محفوظ رہنے کا تحریراً معاہدہ ہواتھا،ڈھائی سال تک یوں کام چلتارہا،اس کاروبار میں مجھے نقصان بھی ہوتارہا ،لیکن میں نے نقصان کو بوجھ اپنے ذمہ لیا اور شرکاء کا ان کے طے شدہ منافع کے حساب سے رقم دیتارہا،بالآخر اب میں اس کاروبار شرکاء کوصرف منافع دیتے ہوئے تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ کا   مقروض ہوچکا ہوں ،بعض شرکاء کو ہر ماہ منافع دیتے ہوئے ان کی اصل رقم سے زائد منافع کی مد میں واپس بھی کرچکاہوں ،بعض شرکاء کو  منافع میں ان کی اصل رقم سے کم ملے ہیں ،اب سوال یہ ہےکہ کیا یہاں جو کام کیا گیا ،اور سے جو رقم منافع کی صورت میں تقسیم ہوئی اس طرح یہ کام کرنا جائزتھا؟اب جن لوگوں کی اصل رقم مجھے واپس کرنی ہےاسے کس طرح واپس کیاجائے،آیا پوری رقم واپس کردی جائے یا اس میں کٹوتی کی جائےکیوں کہ بعض ایسے شرکاء ہیں جن کے ساتھ تحریراً اصل رقم کی واپسی کا معاہدہ ہواہے۔

جواب

 سائل نے شرکاء سے رقم لے کر کاروبار میں لگائی اور کام صرف سائل کرتارہا جب کہ دیگر شرکاء نے صرف رقم لگائی،تو  شرعا ً سائل نے دیگر شرکاء کےساتھ  مضاربت کا معاملہ کیا ہے،اورمضاربت  کے عقد  میں نفع  کی ایک مخصوص رقم مقرر کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ حاصل شدہ نفع کو رب المال (انویسٹر) اور مضارب (محنت کرنے والے) کے درمیان فیصد کے اعتبار سے مقرر کرنا ضروری ہے، اگر کسی عقد مضاربت میں ایک مخصوص رقم منافع کے طور پر طے کر دی جائے یا اصل سرمایہ کے محفوظ ہونے کی شرط لگائی جائے بہر دو صورت عقد فاسد ہوجاتا ہےاور مضاربتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ اس میں نفع یا نقصان سرمایہ دار کا اور محنت والا اجرتِ مثل (اس جیسے کام کرنے والے کی  اجرت )کا حق دار ہوتاہے۔

  صورتِ مسئولہ میں سائل نے  کاروبار میں شرکاء کےساتھ مخصوص نفع کی شرط بھی لگائی اور اصل رقم محفوظ رہنےکی یقین دہائی کا معاہدہ بھی کیا، نیز سائل نے اس کاروبار میں نقصان ہونے کے  باوجود شرکاء کو منافع ہی دیتارہا،جس کے بعد سائل کا روبار میں مقروض ہوچکا ہےتو ایسی صورت میں مذکورہ  معاملہ مضاربت فاسدہ کاہے،لہٰذاایسی صورت میں سائل مذکورہ معاملے  میں صرف اجرت ِ مثل کا حق دارہے،جن شرکاء کو سائل نے باوجود نقصان کےمنافع دیے وہ منافع  دینا جائز نہیں تھا ،لہٰذ ا اداکردہ کل منافع اور کل سرمایہ جمع کرکے  اس سے  قرض کی کٹوتی کی جائے گی ،کٹوتی   کرنے کے بعد  دیکھا جائے گا،اگر  کا روبار میں نفع ہوا تھا ،تو یہ نفع ہر سرمایہ دار کو اس کی لگائی گئی رقم کے حساب سے دیا جائے گا،لیکن یہ معاملہ چوں کہ فاسد  تھا اس لیے ان منافع کی رقم  کا استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ ان منافع کو صدقہ کردیا جائے،اور اگر کل سرمایہ اور شرکاء کو اداکردہ منافع کا حساب کرنے کےبعداور  قرض کی کٹوتی کرنے کےبعد   اس میں  نقصان  ہورہاہے ، تو یہ نقصان  ہر شریک کی لگائی گئی رقم پر فیصد کے حساب سے آئے گا،اور نقصان ہر شریک کی اصل  رقم سے فیصد کے حساب سے کٹوتی کرکے باقی  ماندہ اصل رقم  شرکاء کو واپس کی جائے گی۔ نقصان کی صورت میں جن شرکاء کو منافع کی رقم دی گئی ہے ان سے واپس کرکے دیگر شرکاءکو ان کی اصل رقم (نقصان کی کٹوتی کرنے کے بعد )واپس کی جائے گی۔اور جن شرکاء کے ساتھ تحریری طور پر اصل رقم محفوظ ہونے کا معاہدہ کیاتھا،شرعاً یہ معاہدہ جائز نہیں تھا،نیز سائل  صرف اس مدت کی اجرتِ مثل کا حق دار ہے ۔

البحرالرائق    میں ہے:

"قال : (ولاتصح إلا أن یکون الربح بینهما مشاعاً، فإن شرط لأحدهما دراهم مسماةً فسدت )؛ لما مر في الشرکة، وکذا کل شرط یوجب الجهالة في الربح یفسدها لاختلال المقصود".

(كتاب الشركة ،ما تبطل به شركة العنان،ج:5،ص:191،ط:دارالکتب العلمیة)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"المادة (1427) إذا تلف مقدار من مال المضاربة فيحسب في بادئ الأمر من الربح ولا يسري إلى رأس المال ، وإذا تجاوز مقدار الربح وسرى إلى رأس المال فلا يضمنه المضارب سواء كانت المضاربة صحيحة أو فاسدة."

(الکتاب العاشر الشرکات،الباب السابع في حق المضاربة،الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة،ص275،ط؛دار الجیل)

درر  الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 1428) - (يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط) . يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. ويستفاد هذا الحكم من الفقرة الثانية من المادة الآنفة وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط. انظر المادة (83) أي يكون الشرط المذكور لغوا فلا يفسد المضاربة (الدرر) ؛ لأن هذا الشرط زائد فلا يوجب الجهالة في الربح أو قطع الشركة فلا تفسد المضاربة به حيث إن الشروط الفاسدة لا تفسد المضاربة (مجمع الأنهر)."

(الکتاب العاشر الشرکات،الباب السابع في حق المضاربة،الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة،ج3،ص459،ط؛دار الجیل)

فتاو یٰ شامی میں ہے:

’’ (وركنها الإيجاب والقبول وحكمها) أنواع؛ لأنها (إيداع ابتداء) ۔۔۔ (وتوكيل مع العمل) لتصرفه بأمره (وشركة إن ربح وغصب إن خالف وإن أجاز) رب المال (بعده) لصيرورته غاصبا بالمخالفة (وإجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله مطلقا) ربح أو لا (بلا زيادة على المشروط) خلافا لمحمد والثلاثة‘.

 وفي الرد:’’ (قوله: مطلقا) هو ظاهر الرواية قهستاني (قوله ربح أو لا) وعن أبي يوسف إذا لم يربح لا أجر له وهو الصحيح لئلا تربو الفاسدة على الصحيحة سائحاني ومثله في حاشية ط عن العيني (قوله على المشروط) قال في الملتقى: ولا يزاد على ما شرط له كذا في الهامش أي فيما إذا ربح وإلا فلا تتحقق الزيادة فلم يكن الفساد بسبب تسمية دراهم معينة للعامل تأمل (قوله خلافا لمحمد) فيه إشعار بأن الخلاف فيما إذا ربح، وأما إذا لم يربح فأجر المثل بالغا ما بلغ؛ لأنه لا يمكن تقدير بنصف الربح المعدوم كما في الفصولين لكن في الواقعات ما قاله أبو يوسف مخصوص بما إذا ربح وما قاله محمد إن له أجر المثل بالغا ما بلغ فيما هو أعم قهستاني (قوله: والثلاثة) فعنده له أجر مثل عمله بالغا ما بلغ إذا ربح در منتقى كذا في الهامش.‘‘ 

(كتاب المضاربة، ج:5،ص:646، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں