بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

عقدِ مضاربت میں نقصان کا ضامن کون ہے؟


سوال

میں نے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا، جس میں 2 لاکھ کا سرمایہ میں نے لگایا اور دوسرے نے کوئی سرمایہ نہیں لگایا بلکہ وہ صرف کام کرتا تھا، اور نفع کی تقسیم میں یہ طے تھا کہ 60 فیصد نفع میرا ہوگا اور 40 فیصد نفع اس کا ہوگا۔ اس کاروبار میں نقصان ہوگیا، اور نقصان کی وجہ صرف دوسرے ساتھی کی غفلت تھی، بہرحال ہم نے معافی تلافی کرکے معاملہ ختم کیااور کاروبار ختم ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد دوبارہ ہم دونوں نے اسی طرح کاروبار شروع کیا، جس میں سارا سرمایہ میرا تھا اور کام اس کے ذمہ تھا، اس دفعہ نفع کا تناسب یہ طے ہوا کہ 54 فیصد میرا ہوگا اور 46 فیصد اس کا، بدقسمتی سے اس مرتبہ پھر کاروبار میں نقصان ہوگیا، اس مرتبہ ہم دونوں میں سے کسی کی غلطی بظاہر نہیں تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ نقصان کس کے ذمہ ہے؟نقصان نفع سے پورا کیا جائے گا یا میرے ذمہ آئے گا یا میرا ساتھی نقصان بھرے گا؟

جواب

واضح رہے کہ  جب ایک شخص کی طرف سے سرمایہ ہو اور دوسرے کی طرف سے محنت، اور نفع کی فیصد بھی طے ہو، تو ایسے معاملہ کو شرعاً ”مضاربت“ کہلاتا ہے، مضاربت میں نقصان ہونے کی صورت میں  ضابطہ یہ ہے کہ پہلے اس کو سابقہ نفع سے پورا کیا جائے گا(یعنی اگر کاروبار میں پہلے نفع ہوا ہے تو دونوں فریق اپنا اپنا نفع واپس کرکے نقصان کا ازالہ کریں گے)، اگر اس سے نقصان کی تلافی نہ ہوتی ہو کہ نقصان اس نفع سے بھی زیادہ ہو، تو سرمایہ کار یعنی انویسٹر اس نقصان کا ضامن ہوگا،ورکنگ پارٹنر یعنی مضارب ضامن نہیں ہوگا اس کا نقصان یہی ہے کہ اس کی محنت کا اسے کچھ نہ ملا،  البتہ اگر نقصان  مضارِب کی غفلت اور تعدی کی وجہ سےہوا ہو، تو اس کا ضامن  مضارب یعنی ورکنگ پارٹنر   بنے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں دوسری مرتبہ کاروبار میں جو نقصان ہوا ہے، چوں کہ وہ ورکنگ پارٹنر کی  غفلت کی وجہ سے نہیں ہوا، لہذا اس نقصان کو نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر نفع اتنا نہیں ہے کہ اس سے نقصان کا ازالہ ہوسکے، تو  پھر سائل یعنی سرمایہ کار   نقصان کا ضامن ہوگا، ورکنگ پارٹنر پر ضمان نہیں آئے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وما ‌هلك ‌من ‌مال ‌المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين."

(کتاب المضاربة، ج:5، ص:656، ط: دار الفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد."

(کتاب المضاربة، باب المضارب یضارب، ج: 5، ص: 67، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

مجمع الأنہر میں ہے:

"(فإن ‌تجاوز) ‌المضارب بأن يخرج إلى غير ذلك البلد فتصرف فيه أو اشترى سلعة غير ما عينه أو في وقت غير ما عينه أو باع مع غير من عينه (ضمن) لأنه صار غاصبا بالمخالفة وكان المشترى له (والربح له) أي للمضارب، وعليه خسرانه."

(كتاب المضاربة، ج:2، ص:325، ط:دار إحياء التراث العربي)

مجمع الضمانات  میں ہے:

"ثم المدفوع إلى المضارب أمانة في يده لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه لا على وجه البدل والوثيقة، وهو وكيل فيه لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه فإذا ربح فهو شريك فيه، وإذا فسدت ظهرت الإجارة حتى استوجب العامل أجر مثله، وإذا خالف كان غاصبا لوجود التعدي منه على مال غيره."

(باب في مسائل المضاربة، الفصل الأول في المضاربة، ص: 303، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں