بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں نقصان کی ذمہ داری اور ورکنگ پارٹنر کے لیے ماہانہ سیلری مقرر کرنا


سوال

 ایک کاروبار شروع کیا گیا جس میں تین شریک تھے، پہلا جس کا پیسہ تھا ان کا پچاس فیصد طے ہوا، بقیہ دونوں کا پچیس پچیس فیصد نفع طے ہوا، پہلے شریک کا پیسہ تھا اور اس کا منافع پچاس فیصد تھا جب کہ بقیہ دونوں ساتھیوں کا حصہ پچیس پچیس فیصد تھا اور ان کی صرف محنت تھی اور ان دونوں کا کوئی بھی روپیہ نہیں لگا تھا۔

جب کام شروع کرنے کی بات ہوئی تو دونوں ورکنگ پارٹنرز نے (جن کا پیسہ نہیں لگا تھا) پیسہ لگانےوالے پارٹنر سے یہ طے کرلیا تھا کہ اگر پیسہ ڈوب گیا تو کام کرنے والے دونوں ساتھیوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی، اس بات کی وجہ سے ابتدا میں کام شروع ہی نہیں ہوسکا، پھر بعد میں دوبارہ جس شریک کا پیسہ تھا ان کی طرف سے کام شروع کرنے کی آفر آئی کہ کام تو شروع کیا جائے باقی اللہ مالک ہے۔ کام کرنے والے ساتھیوں نے پہلے سے یہ طے کرلیا تھا کہ بالفرض کام نہیں چلا تو دو کام کرنے والے ساتھی نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ذمہ دار ہوں گے۔

ان تین ساتھیوں میں ایک  اپنی جاب چھوڑ کر اس میں شریک ہوا، جب کہ دوسرے ساتھی کا یہ طے ہوا کہ وہ جاب نہیں چھوڑیں گے اور اپنے فارغ اوقات اس میں دیں گے، اسی لیے جو ساتھی پورا وقت دے رہا تھا اس کی ایک سیلری بھی طے کی گئی جو اس کی جاب سے پچیس ہزار کم تھی۔ پیسہ لگانے والے ساتھی نے ایک اندازے سے  بجٹ بھی طے کردیا تھاکہ اس حدتک پیسے وہ لگادیں گے، جب کہ کام کرنے والے جو ساتھی تھے ان کی کچھ چیزوں میں اچھا تجربہ تھا اور کچھ میں کسی درجے ناتجربہ کاری بھی تھی جو کہ صاحبِ مال کو پتا بھی تھی۔ صاحبِ مال نے یہ طے کیا تھا کہ وہ پانچ پانچ لاکھ کی قسط ہر ماہ دے دیا کریں گے، دوسری قسط کے بعد ہی کرونا سے پیدا شدہ کچھ ملکی اور بین الاقوامی صورتِ حال میں کام مشکل نظر آنے لگا جو کہ پیسے لگانے والے کو بتایا بھی گیا کہ کام ابھی نہیں چل سکا اور کیا کیا مشکلات ہیں۔ تیسری قسط کے خرچ ہونے کے بعد بھی جب کاروبار کوئی خاص لائن پر آتا ہوا نظر نہیں آیا تو یہ صورتِ حال دوبارہ انویسٹر کے سامنے رکھی گئی جس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ اب مجھ سے کیا چاہتے ہو، پھر انہوں نے کچھ چیزوں کو گنوایا بھی کہ میرے حساب سے یہ یہ چیزیں فضول خرچی کی گئی ہے، اب اگر تم لوگ خود چلاسکتے ہو تو مجھے اجازت دو،  مجھے نہیں لگتا کہ تم لوگ اس کو چلالوگے، اس لیے میں الگ ہونا چاہتا ہوں، اگر کام چل جائے تو تم اس کا مجھے تھوڑا تھوڑا کرکے اتاردینا۔

بہرحال بقیہ دو ساتھیوں نے کام چلانے کی کوشش کی جو کہ کووڈ 19 کی وجہ سے پھر رک گیا، اس میں دونوں ساتھیوں کی نیت یہی تھی کہ اگر یہ کام چل گیا تو سب سے پہلے جس ساتھی کا پیسہ پھنسا ہوا ہے وہ نکالنا ہے۔ اس کے بعد اپنا منافع سوچا جائے گا، اور ظاہر ہے بقیہ دو ساتھی پیسوں کے لحاظ سے اتنے مضبوط ہیں نہیں کہ خرچہ کھل کرسکیں تو آگے کی بھی ابھی کوئی صورتِ حال واضح نہیں۔ موجودہ وقت میں کاروبار مکمل طور پر بند ہے۔

یہ بات بھی آپ حضرات کے علم میں لانا چاہوں گا کہ کاروبار نے ابھی کمانا شروع ہی نہیں کیا تھا اور یہ سارے خرچے اور کام اسی رقم سے ہوئے جو صاحبِ مال نے اس کاروبار میں لگائے تھے۔ اس وقت پیسہ لگانے والے ساتھی یہ تقاضا کررہے ہیں کہ تھوڑا تھوڑا ہی صحیح مگر میرے پیسے اتارنا شروع کردو، جب کہ جس ساتھی نے جاب چھوڑی تھی وہ ابھی جاب پر نہیں اور اس کو لوٹانے کی صورت بھی نظر نہیں آرہی ہے۔

اس ساری صورتِ حال میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1- کیا شرعی لحاظ سے کام کرنے والے ساتھیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کو اتاریں؟

2- کیا پیسہ لگانے والے ساتھی کا یہ مطالبہ درست ہے؟ اگر ذمہ داری بنتی ہے تو کیا جتنا اصل سرمایہ ڈوبا ہے، اس کا کل ان دونوں کو دینا ہوگا یا اپنے فیصد کے حساب سے؟ کیوں کہ یہ دونوں منافع کے پچیس پچیس فیصد حصہ میں شریک تھے اور جن کا پیسہ تھا ان کا پچاس فیصد طے ہوا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ساری باتیں اصل سرمایہ میں ہیں نفع میں نہیں؛ کیوں کہ کاروبار ابھی چلنے کی پوزیشن میں نہیں آیا تو نفع کی بات تو ممکن بھی نہیں۔ پھر یہ دوکام کرنے والے ساتھی کس حساب سے ادا کریں گے؟

3- جس پارٹنر نے تنخواہ لی ہے، کیا اس کے ذمے اس کو لوٹانا لازم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہو  شرعًا ایسا معاملہ  "مضاربت" کہلاتا ہے،  مضاربت میں نفع فیصد کے اعتبار سے طے کیا جانا ضروری ہوتا ہے اور نقصان ہونے کی صورت میں  اگر  کاروبار میں نفع ہوا ہو تو نقصاننفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر کاروبار میں کچھ نفع نہ ہوا ہو، بلکہ صرف نقصان ہی ہوا تو اس صورت میں اگر مضارب  (ورکنگ پارٹنر) کی کوئی تعدی اور کوتاہی ثابت نہ ہو تو  یہ نقصان سرمایہ کار (انویسٹر) کا ہی ہوگا، اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين".(5 / 656)

نیز مضاربت کے معاملہ میں ورکنک پاٹنر کے لیے  نفع کے ساتھ ماہانہ تنخواہ مقرر کرنا  جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ورکنگ پاٹنر نفع ہونے کی صورت میں شریک ہوگا، اور شریک کی تنخواہ مقرر کرنا   گویا اس کو اجیر بنانا ہے، اور شریک کا اجیر بننا جائز نہیں ہے، یعنی شرکت اور اجارہ دونوں مختلف عقود ایک  ہی عقد میں جمع نہیں ہوسکتے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا۔۔۔ (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن) فإنه لا أجر له لنفعه بملكه۔۔۔ (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد". 

 (کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۶ ؍ ۵۷ ،۵۸ ،۶۰ ، ط:سعید )

لہذا صورتِ مسئولہ میں:

1/2۔۔ چوں کہ مذکورہ کاروبار میں  اب تک نفع نہیں ہوا ہے؛ اس لیے  جس وقت  مضاربت کا معاملہ انویسٹر کی طرف  سے ختم کیا گیا  اس وقت تک کاروبار میں جو کچھ نقصان ہوا ہے  اگر کام کرنے والے دونوں افراد کی  اس میں  کسی قسم کی کوتاہی اور تعدی  نہ ہو   تو یہ نقصان انویسٹر ہی کا شمار ہوگا،  اور باقی جو کچھ سرمایہ اس کا  اس وقت موجود تھا  اس کو فروخت کرکے  اس کی رقم انویسٹر کو واپس کرنا ضروری ہوگا، اصل سرمایہ میں ہونے والے نقصان کے ذمہ دار دونوں ورکنگ پاٹنر نہیں ہوں گے، اس لیے ان سے نقصان کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔

3۔۔ جس ورکنگ پاٹنر نے ماہانہ تنخواہ وصول کی ہے، چوں کہ وہ اس کا مستحق نہیں تھا، اور اس کے لیے یہ تنخواہ لینا جائز نہیں تھا، اس لیے اس  نے جس قدر تنخواہ وصول کی ہے، اس پر  اس تنخواہ کو  واپس لوٹانا لازم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں