میں ایک آدمی سے پیسہ لیتا ہوں ،وہ مجھے اس شرط پر پیسہ دیتا ہے کہ چائے کی پتی وغیرہ لیکر کاروبار کروں اور جو نفع ہوگا وہ آدھا اس کا ہوگا اور آدھا میرا ہوگا۔اور میں ان پیسوں سے چائے کی پتی کا کاروبار کرتا ہوں اور نفع آدھا میں رکھتا ہوں اور آدھا اس شخص کو دیتا ہوں۔کیا اس طریقہ سے کمائی اور تجارت کرنا شرعا جائز ہے؟
مذکورہ طریقہ پر معاملہ کرنے کو شریعت کی اصطلاح میں "مضاربت"کہتے ہیں،مضاربت کاطریقہ یہ ہے کہ ایک جانب سے سرمایہ کاری ہوتی ہے اور دوسرا شخص محنت کرتا ہے،اور نفع حسب معاہدہ دونوں میں تقسیم ہوتا ہے،لیکن اگر کاروبار میں نقصان ہوجائے تونقصان کی تلافی سب سے پہلے نفع سے کی جائے گی،لیکن اگر نقصان نفع سے زیاہ ہوا ہے یا نفع ہوا ہی نہیں تو سرمایہ کارکی رقم ضائع ہوگی اور محنت کرنے والے کی محنت رائیگاں جائے گی۔نیز مضاربت میں سرمایہ کار معاہدہ میں کس خاص قسم کے کاروبار کی شرط لگا نا بھی جائز ہے، کہ اس رقم سے فلاں کاروبار کیا جائے وغیرہ ،لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ معاملہ شرعا درست ہے ۔
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"المادة (1407) المضاربة المطلقة هي التي لم تتقيد بزمان أو مكان أو بنوع تجارة أو بتعيين بائع أو مشتر ، وإذا تقيدت بأحد هذه فتكون مضاربة مقيدة. مثلا إذا قال: اعمل في الوقت الفلاني أو المكان الفلاني أو بع واشتر مالا من الجنس الفلاني أو عامل فلانا وفلانا أو أهالي البلدة الفلانية. تكون المضاربة مقيدة."
(الباب السابع: في حق المضاربة،ص271،ط؛نور محمد )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100193
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن