بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت کی ایک صورت


سوال

ہم اپنے کام میں دو شراکت دار ہیں اس طور پر کہ  سرمایہ مکمل طور پر میرے شریک کا ہے ،میرا کچھ بھی نہیں ہے اور محنت مکمل طور پر میری ہے مگر اس میں ان کی مشاورت اور راہنمائی شامل ہوتی ہے ،ہم نفع و نقصان میں برابر کی تقسیم کے خواہش مند ہیں تو کیا ہماری یہ شراکت درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ایسا عقد کہ جس میں ایک فریق کی طرف سے سرمایہ اور دوسرے فریق کی طرف سے محنت اور عمل ہوشریعت کی اصطلاح  میں مضاربت کہلاتا ہےاوریہ چند شرائط کے ساتھ  جائز  ہے ،جن میں سے چند شرائط درج ذیل ہیں:

1۔سرمایہ نقدی یا سونا چاندی کی صورت میں ہونا ضروری ہے،تجارت کے مال(سامان ) کے ساتھ مضاربت جائز نہیں  ۔

2۔مضاربت کے معاہدہ کے وقت سرمایہ کی مقدار کامعلوم ہونا ضروری ہے  ۔

3۔معاہدہ کے وقت سرمایہ مضارب کے قبضہ میں دینا ضروری ہے۔

4۔منافع میں مضارب کا حصہ منافع کے  تناسب یا فیصد   کے اعتبار سےمعلوم ہونا ضروری ہےمثلاًمنافع کاتہائی یا چوتھائی یا آدھاحصہ یا 50فیصدوغیرہ۔

6۔مضارب کا حصہ منافع میں سے طے کیا جائے گا ،اصل سرمایہ میں سے نہیں ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں سائل اور اس کے شریک کا  نفع میں برابری کی  شرط لگانا تو ٹھیک ہے ،لیکن نقصان میں برابری کی شرط لگانا ٹھیک نہیں  ہے،بلکہ نقصان کی صورت میں حکم یہ ہے کہ نقصاناگر مضارب کی کوتاہی اور زیادتی کے بغیر ہوجائے تو اس  نقصان کی تلافی اولاً حاصل شدہ نفع سےکی جائے گی،اوراگر نفع    نہ ہوا ہو ،یا نفع ہو ا ہولیکن نقصان اس سے زیادہ ہو تو پہلے نفع سے نقصان پورا کیا جائے،اس کے بعد بھی نقصان باقی ہو تو پھر راس المال(  اصل سرمایہ )سے    اس  کی تلافی کی جائےگی،مضارب    پراس کا کوئی ضمان نہیں ہوگا ،لہٰذااگر مذکورہ شرائط پائی جارہی ہوں تو مضاربت کا معاملہ درست ہوگا،اگر مذکورہ شرائط نہیں پائی جارہیں مثلاً کاروبار کا سارا معاملہ مالک کی طرف سے ہو ،سائل صرف کام کررہا ہوتو اس  صورت میں سائل کی حیثیت ملازم کی ہوگی جس کے لیے تنخواہ کا مقرر کرنا ضروری ہوگا ،نفع سارا کا سارا مالک کا ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(منها) إعلام مقدار الربح؛ لأن المعقود عليه هو الربح، وجهالة المعقود عليه توجب فساد العقد ولو دفع إليه ألف درهم عن أنهما يشتركان في الربح ولم يبين مقدار الربح جاز ذلك، والربح بينهما نصفان؛ لأن الشركة تقتضي المساواة.(ومنها) أن يكون المشروط لكل واحد منهما من المضارب ورب المال من الربح جزءا شائعا، نصفا أو ثلثا أو ربعا، فإن شرطا عددا مقدرا بأن شرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز، والمضاربة فاسدة."

(کتاب المضاربۃ،فصل فی شرائط رکن المضاربۃ،ج6،ص85۔86،ط:دارالکتب العلمیۃ)

الدر مع الرد میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين(وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر."

(کتاب المضاربۃ ،باب المضارب یضارب ،ج5،ص656،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"المادة (1427) إذا تلف مقدار من مال المضاربة فيحسب في بادئ الأمر من الربح ولا يسري إلى رأس المال , وإذا تجاوز مقدار الربح وسرى إلى رأس المال فلا يضمنه المضارب سواء كانت المضاربة صحيحة أو فاسدة.

(المادة 1428) يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط."

(الباب السابع فی حق المضاربۃ،الفصل الثانی فی بیان شروط المضاربۃ،المادۃ1427۔1428،ص275۔276،ط:نورمحمد کارخانہ تجارت کتب۔آرام باغ کراچی)

وفیہ ایضاً:

"(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو أجير وإذا خالف فهو غاصب وإن أذن بعده ولو شرط الربح لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي.۔۔۔المضارب إذا عمل في المضاربة الفاسدة وربح يكون جميع الربح لرب المال وللمضارب أجر مثله فيما عمل لا يزاد على المسمى في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وإن لم يربح المضارب كان له أجر مثله كذا في فتاوى قاضي خان. هذا جواب ظاهر الرواية كذا في المحيط."

(کتاب المضاربۃ،الباب الأول في تفسير المضاربۃ وركنها وشرائطها وحكمها،4/288،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100286

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں