بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرض والے معاملے کا حکم اور درست معاملہ کرنے کا مشورہ


سوال

میرا ایک دوست ہے ، جو فشری میں کام کرتا ہے،  وہ مجھے کہتا ہے کہ 10 لاکھ روپے کا یہ مال (مچھلی) آرہا ہے میرے لیے 10 لاکھ روپے کا مچھلی تم خرید لو،اور 45 دن بعد میں آپ کو 10 لاکھ  روپے پر  ڈیڑھ لاکھ روپے منافع دے  دوں گا،  کیا میرا  اس طرح  مچھلی کو خرید کر   اس کو دینا اور اس کا پھر  مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے نفع  دینا  صحیح ہے یا نہیں ؟اگر صحیح نہیں ہے تو شرعی اعتبار سے درست اور صحیح طریقہ کیا ہوگا؟وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے دوست کا یہ کہنا کہ "  10 لاکھ روپے کا یہ مال( مچھلی) تم میرے لیے خرید لو، 45 دن بعد میں آپ کو 10 لاکھ پر ڈیڑھ لاکھ روپے منافع دے دوں گا" ،تو شرعا یہ سودی قرض کا معاملہ ہونے کی وجہ سے  جائز نہیں ہے، البتہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ :

 آپ 10 لاکھ روپے کی مچھلی  اپنے لئے خرید کر اس پر قبضہ کرکے  اپنے دوست کو ادھار پر مثلاً گیارہ لاکھ روپے میں فروخت کردیں ، اور مدت مقرر ہ میں اپنے گیارہ لاکھ روپے وصول کرلیں،تو  اس طرح کرنا جائز ہوگا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"و إذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا و بالنقد بكذا، أو قال: إلى شهر بكذا و إلى شهرين بكذا، فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم و لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع، و مطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، و هذا إذا افترقا على هذا، فإن كان يتراضيان بينهما و لم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، و أتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، ج:13، ص:8، ط:دار المعرفة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:‌‌

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إذا ‌أقرض ‌أحدكم ‌قرضا فأهدي إليه أو حمله على الدابة فلا يركبه ولا يقبلها إلا أن يكون جرى بينه وبينه قبل ذلك» . ..(قبل ذلك) أي الإقراض لما ورد " كل قرض جر نفعا فهو ربا ". قال مالك: لا تقبل هدية المديون ما لم يكن مثلها قبل أو حدث موجب لها."

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الثالث، ج:6، ص:69، ط:مكتبة امداديه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں