بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت کے نفع کا حکم


سوال

میرا ایک دوست ہے جو کہ ساتویں درجے میں علم حاصل کررہا ہےاس نے ایک انویسٹمنٹ کمپنی بنائی ہے۔ لوگ اسمیں انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ پہلے اس کا طریقہ کار اس طرح تھا کہ ایک ویب سائٹ بنائی تھی ،اس میں کچھ پیکیج تھے، کسی ایک کو باۓ کرنے کے بعد آپ کو ایڈز ملتے۔ایڈز علماء کرام کے آڈیو بیانات ہوتے تھے ۔اسکو دیکھنے پر پرافٹ اور ساتھ اپنے انویسٹ رقم کا بھی کچھ حصہ واپس ملتا تھا۔رقم کو وہ آگے کاروبار میں لگاتا تھا، اور بی فار یو کمپنی میں بھی انویسٹ کرتا ۔جب مجھے پتہ چلا کہ ایڈز دیکر منافع کمانا اور بی فار یو کمپنی سے منافع لینا ناجائز ہے تو میں نے اسکو فوراً بتادیا لیکن اس نے جواب میں کہا میں نے پتہ کیا ہے جائز ہے ،ویسے بھی ایڈز والی ترتیب ہم کچھ دنوں میں ختم کرتے ہیں۔مضاربت پر کام شروع کرتے ہیں۔پھر بھی اگر آپ مطمئن نہیں  تو آپ کی رقم اپنے ذاتی کاروبار میں انویسٹ کرلیں گے ۔ لیکن پرافٹ باقی انویسٹر سے کم آئے گا ،کیونکہ فزیکل کاروبار میں اتنا نہیں آسکتا ۔میں نے کہا ٹھیک ہے ،شرائط لکھ دیے اور ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ میری رقم صرف اپنے ذاتی کاروبار میں انویسٹ ہوگی ۔ان سے جو پرافٹ آئے وہ مجھے دیا کرو اس وقت جو کاروبار اس نے بتائے تھے پراپرٹی، کنسٹرکشن، کرنسی ڈالر ،درہم وغیرہ اور بھی کئی تھے ۔اسی طرح جب میں نے مضاربت پر انویسٹمنٹ کردی تواس نے مجھے کمیشن بھی دے دیا ۔اصل میں نئے انویسٹر لانے پر کمیشن ملتا تھا، لیکن مجھے وہ اپنی رقم پر بھی دیتا تھا۔ابھی میرے سوال کا جو اصل مقصد ہے وہ یہ ہے کہ ایڈز سے ملنے والا پرافٹ تو ناجائز ہے، لیکن جو مضاربت پر منافع ملا ہے اس کا کیا حکم ہے، اور جو کمیشن ملا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر سائل کو یقین یا غالب گمان ہے کہ اس  کے دوست نے مضاربت کے پیسے کسی حقیقی جائز  کاروبار میں لگائے تھے اور سائل اور اس کے دوست نے مضاربت کا معاملہ شرعی اصولوں کے مطابق کیا تھا  تو پھر سائل کے لیے اس مضاربت کے عقد سے ہونے والی آمدن شرعا حلال ہوگی۔اگر سائل کو غالب گمان یا یقین نہ ہو کہ مضاربت کے پیسے حقیقی کاروبار میں لگائے گئے ہیں بلکہ سائل کا غالب گمان یہ ہو کہ یہ رقم بھی بی فار یو یا اس طرح کی دیگر مشتبہ کمپنیوں میں لگائے گئے ہیں تو پھر معاملہ کو ختم کردے اور صرف اپنی اصل رقم وصول کرلے، نفع وصول نہ کرے۔

نیز سائل کو اس کے دوست نے جو کمیشن دیا وہ کس عمل کے بدلہ وہ کمیشن دیا ؟ سوال میں اس بارے میں ابہام ہے۔ اس کمیشن والے معاملہ کی مکمل تفصیل بیان کرکے جواب معلوم کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر.....(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك."

(کتاب المضاربۃ، ج نمبر ۴، ص نمبر ۲۸۵، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں