بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت کے حوالہ سے شرعی شرائط و احکام


سوال

جناب مفتی صاحب! مجھے پارٹنر شپ کے مندرجہ ذیل معاہدے سے متعلق چندسوالوں کے جوابات اور شرعی راہ نمائی درکار ہے:

1: دو شخص ایک کاروبار شروع کرنا چاہ رہے ہیں، کاروبارسروسز کا ہے،یعنی ایک میڈیکل لیب بنایا جائے گا،اور اس میں ایکسرے،ٹیسٹ وغیرہ کا کام کیا جائے گا،معاملہ میں  ایک فریق کی انویسمنٹ (سرمایہ) اور دوسرے کی محنت ہوگی، جس کی انویسمنٹ ہےاس کا کاروبار کے نفع میں 75 فیصد ہوگا اور جس کی محنت ہے، اس کا 25 فیصد ہوگا،نقصان کے حوالہ یہ طے پایا کہ وہ سرمایہ دار کا ہوگا،ورکنگ پارٹنر کا نہیں ہوگا،اب ورکنگ شئیروالا(محنت کرنے والا) کہتا ہے کہ مجھے 25 فیصد نفع میں حصہ دینے کے ساتھ ماہانہ ایک متعین تنخواہ بھی دو؛ تاکہ میرے گھر کا گزربسر بھی ہوسکے، کیوں کہ ممکن ہے شروع میں کاروبار میں نفع نہ ہو۔تو کیا یہ جائز ہے؟

2:اگر کام کرنے والے کی محنت سے کاروبار چل جائےاور ترقی کرجائے، اب اس کے بعد انویسٹر کام کرنے والے شریک سے یہ کہے کہ میں تمہیں فارغ کرنا چاہتا ہوں،اور یہ ساراکاروبار میرا ہے،تو کیا اُسے یہ حق حاصل ہوگا؟اور کیا اس قسم کی حالت سے بچنے کے لیے ابتداء میں معاہدہ میں یہ لکھ سکتے ہیں کہ اگر انویسٹر (سرمایہ کار)اس طرح کرےگا تو اسے ورکنگ پارٹنر کو نکالنے سے پہلے مکمل بزنس کی مالیت کا 25 فیصدحصہ دینا ہوگا،اس کا مقصدیہ ہے کہ محنت کرنے والے کو محنت کا صلہ مل جائے،اور اس کی محنت رائیگاں نہ جائے، تو کیا ایسا کیاجاسکتا ہے؟

3:ورکنگ شئیرز والا(کام کرنے والا شریک) چوں کہ اس کمپنی / کاروبار کا(CEO) چیف ایگزیٹو آفیسر ہوگا،یعنی سارے معاملات وہی دیکھے گااور طے کرے گا، تو اس کو اپنے لیے"کمپنی مینٹین گاڑی مع فیول" مل سکتی ہے؟ یعنی جس طرح دیگر منیجرز وغیرہ کو کمپنی کی طرف سے استعمال کی گاڑی ملتی ہے، وہ اس ورکنگ شئیر والےکو بھی مل سکتی ہے یا وہ اس کو اپنے 25 فیصد نفع میں سے کرنا ہوگا؟کمپنی کے دیگر منیجرز کو اس ورکنگ پارٹنر(کام کرنے والے)نے کاروباری معاملات و ضروریات کے حوالہ سےاجرت پر رکھا ہوگا۔

4: ورکنگ شئیر والا شخص مثلاً 20 سے 25 سال کام کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوجائے یا بوڑھاہوجائے،اور کام کے قابل نہ رہے یااس کا انتقال ہوجائے تو کیا معاہدہ میں یہ شرط رکھ سکتے ہیں کہ ان تینوں صورتوں میں مذکورہ بزنس کے نفع کا 25 فیصد حسبِ سابق، گزر بسر کے لیے اس کی فیملی کو ملتا رہے،تو کیا شرعاً اس کی اجازت ہے؟

وضاحت: یہ معاملہ کسی خاص مدت و وقت کے ساتھ مشروط نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

جواب

واضح رہے کہ دو شخصوں کے درمیان ایساکاروباری معاہدہ  جس میں ایک فریق کی  جانب سے سرمایہ(انویسمنٹ) اور دوسرےفریق کی جانب سے محنت(ورکنگ) ہو،تو شرعی و فقہی اعتبار سے وہ معاملہ "عقدِ مضاربت" کہلاتا ہے،اور اس میں مضاربت کے حوالہ سے شرعی و فقہی شرائط و قیود کی رعایت رکھنا لازم  ہے۔

1:لہذا صورتِ مسئولہ میں مضاربت کےمذکورہ معاہدہ میں  انویسٹر (سرمایہ کار) کے لیے منافع کے75 فیصدحصہ اور  ورکنگ پارٹنر(کام کرنے والا) کے لیے منافع کے 25 فیصد حصہ مقرر کرنا تو درست ہے،البتہ اس پچیس فیصد حصہ کے ساتھ ورکنگ پارٹنر(مضارب)کے لیےماہانہ تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں ہے،کیوں کہ مضاربت میں کسی بھی فریق کے لئے اپنے طے شدہ نفع کے علاوہ الگ سے رقم متعین کرنااور لینا جائز نہیں ہے، چاہے ربّ المال (سرمایہ دار) اس پر راضی ہی کیوں نہ ہوں، اس کی جائزصورت یہ ہے کہ مضاربت (کام کرنے والے)کا نفع میں حصہ بڑھا دیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر."

(كتاب المضاربة،الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:285، ط:دارالفكر)

وفيه أيضا:

"(وأما الشروط) الفاسدة فمنها ما تبطل المضاربة ومنها ما لا تبطلها بنفسها إذا قال رب المال للمضارب لك ثلث الربح وعشرة دراهم في كل شهر عملت فيه للمضاربة فالمضاربة جائزة والشرط باطل كذا في النهاية."

(كتاب المضاربة،الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:287، ط:دارالفكر)

شرح مختصر الطحاوی میں ہے:

"(ولا تجوز المضاربة على أن لأحدهما دراهم معلومة)."

( كتاب المضاربة 3/ 367، ط. دار البشائر الإسلامية)

2: مذکورہ معاملہ میں ورکنگ پارٹنر کا انویسٹر  کی جانب سے مستقبل میں یہ کاروباری شراکت داری ختم کرنے کے اندیشہ کے پیشِ نظرمکمل بزنس ( سرمایہ)میں اپنے لیے 25 فیصد حصہ کی شرط لگانا درست نہیں ہے،نیز اگر درمیان میں رب المال (سرمایہ کار) مضاربت ختم کرنا چاہے تو اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے،اس صورت میں ہر ایک فریق(انویسٹر اور ورکنگ پارٹنر) اپنے مقررہ نفع کے تناسب سے فقط منافع کا حق دار ہوگا۔

3: نیزعرف و معاشرہ میں مذکورہ بالا کمپنیوں کے اندرکمپنی کے (CEO)چیف ایگزیٹو آفیسر کے لیے کام کاج کے حوالہ سے جو سہولیات رائج ہیں ،اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حسبِ عرف ورکنگ پارٹنر  کمپنی مینٹین یا گاڑی وغیرہ کی سہولت لے سکتاہے،اور  یہ سہولیات  اس کےمقررہ منافع کی شرح  25 فیصد  میں سے شمار نہیں ہوں گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون المشروط للمضارب مشروطا من الربح لا من رأس المال حتى لو شرط شيئا من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت المضاربة كذا في محيط السرخسي."

(كتاب المضاربة،الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:287، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت."

( كتاب المضاربة 5/ 648، ط. سعيد)

4:ورکنگ پارٹنرکااپنےانتقال کی صورت میں یا 20 سے 25 سال بعدکام سے عاجز آنے کی صورت میں  اپنی فیملی کے لیے حسبِ سابق نفع کی شرط لگانا اور وصول کرنا درست نہیں ہے، بلکہ ورکنگ پارٹنر کے انتقال کی صورت میں مضاربت کا معاملہ  ازخودختم ہوجائےگا،اورورکنگ پارٹنرکے کام نہ کرنے کی صورت میں سرمایہ دار کو اختیار ہوگا کہ چاہے تومعاملہ کو حسبِ سابق برقرار رکھے اور نفع دیتا رہے،یاپھر معاہدے کی ابتداء سے لے کر اب تک جتنا نفع نقصان ہوا ہو، اس کا حساب کتاب کرکے ورکنگ پارٹنر کے علم میں لاکر معاملہ ختم کردے۔ 

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"قال (وإذا مات رب المال أو المضارب بطلت المضاربة) لأنه توكيل على ما تقدم، وموت الموكل يبطل الوكالة، وكذا موت الوكيل ولا تورث الوكالة وقد مر من قبل."

(کتاب المضاربة، فصل في العزل والقسمة، ج:8، ص:466، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

(وينعزل بعزله) ؛ لأنه وكيل (إن علم به) بخبر رجلين مطلقا أو فضولي عدل أو رسول مميز (وإلا) يعلم (لا) ينعزل (فإن علم) بالعزل ولو حكما كموت المالك."

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:654،ط:سعيد)

باقی مضاربت میں اصولاً نفع کی تقسیم عقدِ مضاربت کی تکمیل پر ہوتی ہے،اور اسی اصول کے پیش نظر مضاربت کا معاملہ ایک معین مدت کے لیے کیا جانا چاہیے، اور اس مدت کے پورا ہونے کے بعد نفع نقصان کو دیکھ کر معاملات کرلینے چاہیے،لیکن اگر عاقدین کے درمیان مضاربت کی تکمیل کے حوالہ سے مدت متعین نہ ہو،اورنفع کے بارے میں  یہ طے ہوجائے کہ وہ  ماہانہ طور پر تقسیم کیا جائےگا تو یہ صورت بھی جائز ہے،بشرطیکہ ہر ماہ کاروبار میں نفع بھی ہواہو،اور اس تقسیم  کی حیثیت من وجہ قرض کی ہوتی ہے،اصل حساب مضاربت کا معاملہ ختم ہونے کے بعد ہوگااور آخری حساب کرنے کے بعد جس فریق کے پاس اس کے طے شدہ نفع سے زیادہ نفع آگیا ہو تو وہ دوسرے کو ادا کرے گا،مثلاً مضارب(عمل کرنے والا) نے زیادہ نفع لیا ہوتو وہ زائد نفع رب المال(انویسٹر) کوادا کرے گا۔نیزمضاربت میں نفع کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ جتنی مدت مضاربت کا معاملہ طے پایا ہو، وہ مدت  گزرنے یاسرمایہ خرچ ہونے کے بعد ،اولاً رب المال(انویسٹر) کو اس کی رقم دے دی جائے ، بعد ازاں جتنا نفع ہوا ہو،وہ فریقین میں مقررہ شرح فیصد کے اعتبار سے تقسیم کردیا جائے،اور اگر نقصان کی صورت پیش آئے توپہلے نفع سے نقصان کو پورا کیا جائےگا،اگر اس سے بھی پورا نہ ہوتورب المال (انویسٹر) اپنے سرمایہ کے حساب سے نقصان برداشت کرے گا،اور (مضارب)سائل کو اس کی محنت کے بدلے میں کچھ نہیں ملے گا۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا أراد القسمة، ‌بدأ ‌برأس ‌المال، فأخرج من المال، وجعلت النفقة مما بقي، فإن بقي من ذلك شيء، فهو الربح يقسم بين المضارب ورب المال على ما اشترطا."

(كتاب المضاربة، باب نفقة المضارب، ج:22، ص:64، ط:دارالمعرفة)

وفيه أيضا:

"الربح بعد انتهاء العقد بوصول رأس المال إلى يد رب المال، أو إلى يد وكيله، فأما مع بقاء المال في يد المضارب، وقيام عقد المضاربة فلا يصح قسمة الربح بينهما."

(كتاب المضاربة، باب نفقة المضارب، ج:22، ص:105، ط:دارالمعرفة)

تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد".

(کتاب المضاربة،باب المضارب یضارب،ج:5،ص:67،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر."

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:656،ط:سعيد)

فقط والله اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144409101657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں