بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربتِ فاسدہ کا حکم


سوال

میں نسوار کی سپلائی کا کام کرتا تھا ،میں نے ماموں سے دو لاکھ روپے نسوار کے کاروبار کے لیے لیے،  معاہدہ یہ ہوا تھا کہ میں کام کروں گا اور فی پیکٹ دس روپے ماموں کو منافع دوں گا بقیہ میرا ہوگا،  اس کام کو آٹھ ماہ گزرچکے ہیں اس عرصہ میں ماموں کو ان کا طے شدہ منافع دیتا رہا ہوں ، کیا ہمارا یہ کاروبار کا طریقہ درست تھا ؟اگر شرعا جائز نہیں ہے تو اتنے عرصہ جو کاروبار کیا اور منافع ہوا اس کا کیا حکم ہے؟  اور آئندہ کے لیے کاروبار کی جائز صورت کیا ہے ؟نیز واضح رہے کہ میں انہیں دو لاکھ روپوں سے ہی نسوار خرید کر سپلائی کرتا تھا، میرا سرمایہ اس میں شامل نہیں تھا اور ماموں کو میں نے پارٹنر (شریک) بھی نہیں بنایا تھا۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے اپنے ماموں سے دو لاکھ روپے کا سرمایہ لے کر نسوار کی سپلائی کا کام شروع کیا اور اس کام میں آپ کا سرمایہ  شامل نہیں تھا تو شرعی اعتبار سے یہ معاملہ "مضاربت" ہے، جس کے جائز ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ  حاصل شدہ نفع کو رب المال (جس کا سرمایہ ہے) اور مضارب (محنت کرنے والے) کے درمیان فیصد کے اعتبار سے مقرر کرنا ضروری ہے، اگر  عقدِمضاربت میں ایک مخصوص رقم منافع کے طور پر طے کر دی جائے تو یہ عقد فاسد ہوجاتا ہے،اور اس کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ   میں مذکورہ عقدِ مضاربت کرتے وقت جب آپ نے یہ شرط لگائی کہ ہر پیکٹ پر دس روپے بطور  نفع دوں گا تو یہ شرط لگانا درست نہیں تھا،اور اس کی وجہ سے یہ عقد بھی فاسد ہوگیا تھا،اس کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس عقد سے حاصل ہونے والے کل منافع رب المال ( سرمایہ دار/ماموں) کے ہیں، مضارب (محنت کرنے والے/آپ ) کو اجرتِ مثل (اس جیسے کام پر جتنی اجرت دینے کا رواج ہے) ملے گی۔ 

نیز اگر اس معاملے کو جاری رکھنا چاہیں تو گذشتہ معاہدہ میں طے پانے والی شرطِ فاسد (فی پیکٹ دس روپے )ختم کرکے ازسرنو معاہدہ کریں اور حاصل شدہ نفع کی تقسیم فیصد کے تناسب سے مقرر کریں۔ 

البحر الرائق  (7/ 264):

’’ الرابع أن يكون الربح بينهما شائعا كالنصف والثلث لا سهما معينا يقطع الشركة كمائة درهم أو مع النصف عشرة الخامس أن يكون نصيب كل منهما معلوما فكل شرط يؤدي إلى جهالة الربح فهي فاسدة وما لا فلا مثل أن يشترط أن تكون الوضيعة على المضارب أو عليها فهي صحيحة وهو باطل ۔۔۔وحكمها أنه أمين بعد دفع المال إليه ووكيل عند العمل وشريك عند الربح وأجير عند الفساد فله أجر مثله والربح كله لرب المال‘‘ 

(كتاب المضاربة، ط: دارالكتاب الإسلامي بيروت)

حاشية ابن عابدين  (5/ 646):

’’ (وركنها الإيجاب والقبول وحكمها) أنواع؛ لأنها (إيداع ابتداء) ۔۔۔ (وتوكيل مع العمل) لتصرفه بأمره (وشركة إن ربح وغصب إن خالف وإن أجاز) رب المال (بعده) لصيرورته غاصبا بالمخالفة (وإجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله مطلقا) ربح أو لا (بلا زيادة على المشروط) خلافا لمحمد والثلاثة‘‘

’’ (قوله: مطلقا) هو ظاهر الرواية قهستاني (قوله ربح أو لا) وعن أبي يوسف إذا لم يربح لا أجر له وهو الصحيح لئلا تربو الفاسدة على الصحيحة سائحاني ومثله في حاشية ط عن العيني (قوله على المشروط) قال في الملتقى: ولا يزاد على ما شرط له كذا في الهامش أي فيما إذا ربح وإلا فلا تتحقق الزيادة فلم يكن الفساد بسبب تسمية دراهم معينة للعامل تأمل (قوله خلافا لمحمد) فيه إشعار بأن الخلاف فيما إذا ربح، وأما إذا لم يربح فأجر المثل بالغا ما بلغ؛ لأنه لا يمكن تقدير بنصف الربح المعدوم كما في الفصولين لكن في الواقعات ما قاله أبو يوسف مخصوص بما إذا ربح وما قاله محمد إن له أجر المثل بالغا ما بلغ فيما هو أعم قهستاني (قوله: والثلاثة) فعنده له أجر مثل عمله بالغا ما بلغ إذا ربح در منتقى كذا في الهامش‘‘ 

(كتاب المضاربة، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں