بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت میں شریک کا مقرر کردہ نفع سے زیادہ دینا


سوال

ایک آدمی نے کسی شخص کوکاروبار میں  پیسہ لگانے کے لیے کچھ رقم مثلاً 5 لاکھ روپے دیے تودوسرےآدمی نے کہا کاروبار میں جو نفع ہوگا اس میں سے 10 فیصد آپ کا ہوگا لیکن    جب نفع ہوا تو اس نے اس کو نفع 10 فیصد سے زیادہ  20 فیصد  یا اس سے زائد دیابغیر کسی معاہدے کے  تو کیا اس طرح نفع مقرر کرنا درست ہے اور اس زائد نفع کا لینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرکت کے معاملہ میں ہر شریک کا نفع ایک معین شرح فیصد کے اعتبار سے طے کرنا ضروری ہے، چنانچہ شرکت کے معاملہ کے بعد ہر شریک اپنے طے شدہ شرح فیصد کے اعتبار سے نفع کا حق دار  ہوتا ہے، تاہم اگر کوئی شریک اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنے نفع میں سے دوسرے شریک کو کچھ دے تو یہ دینا جائز ہے اور   یہ  اس کی طرف سے احسان اور تبرع ہوگا، جس پر جبر نہیں کیا جاسکتا ،تاہم شرکت کا معاملہ کرتے  وقت یہ  طے کرنا کہ  "کوئی شریک اپنے کسی دوسرے شریک کو اپنی طرف سے اپنے نفع میں سے کچھ دےگا" تو اس طرح طے کرنا درست نہیں ہوگا۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و شرط جواز هذه الشركات كون المعقود عليه عقد الشركة قابلًا للوكالة، كذا في المحيط. و أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولًا تفسد الشركة و أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة لا معينًا."

(کتاب الشرکۃ، ص/302، ج/2، ط/رشیدیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها شرعًا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز. و أما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع."

(کتاب الہبۃ، ص/374، ج/4، ط/رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں