بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

Fxglobals کمپنی میں انویسٹ کرنے کا حکم


سوال

 فرانس کی ایک کمپنی ہے جس کانام fxglobals ہے، اس میں لوگ انویسٹ کرتے ہیں، اس کمپنی میں انویسٹ کرتے وقت اور اسی طرح نکالتے وقت ایک ایک ڈالر کٹتاہے،اسی طرح  انویسٹ کردہ پیمنٹ بھی واپس نہیں ملتی، بلکہ صرف  اس انویسٹ کردہ پیمنٹ پر چار مہینوں تک نفع ملتا رہتاہے، یہ کمپنی کرنسیوں کے تبادلے کا کام کرتی ہے، تو کیااس کمپنی میں انویسٹ کرنا جائز ہے؟

جواب

مذکورہ کمپنی میں انویسٹ کرنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1-ابتداءً کمپنی کو جوائن کرنے پر اور معاملہ کے اختتام پر کمپنی ایک ایک ڈالر کاٹتی ہے، جبکہ یہ کٹوتی دو وجہ سے ناجائز ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے، دوسرا یہ رقم بلا عوض ہے، نہ یہ کسی مال کا بدل ہے اور نہ ہی کسی منفعت کا بدل ہے، بلکہ غیر کا مال بلا وجہ لینا ہے جو کہ ناجائز ہے۔

2-چوں کہ یہ شرعاً مضاربت کا معاملہ ہے، اور مضاربت کا حکم یہ ہے کہ اس کو ختم کرتے وقت نفع کی طے شدہ تقسیم کے بعد رب المال (انویسٹر ) کو اس کا کل سرمایہ واپس کر دیا جائے، جبکہ مذکور ہ کمپنی معاملہ کے اختتام پر صرف نفع تقسیم کرتی ہے، اصل سرمایہ سرمایہ کار کو واپس نہیں کرتی، اس لیے شرعاً یہ معاملہ فاسد ہے۔

نیز کمپنی کے کرنسیوں کے کاروبار کے حوالے سے تفصیل نہیں لکھی گئی اس وجہ سے اس پر گفتگو نہیں کی جاسکتی۔

درر الحکام میں ہے:

"المادة (1404) - (المضاربة نوع شركة على أن يكون رأس المال من طرف والسعي والعمل من الطرف الآخر...إيضاح القيود:

1 - من طرف - من الطرف الآخر، فهذا التعبير يشمل كون الطرفين شخصا واحدا كما أنه يشمل كونهما اثنين أو أكثر ويشمل أيضا أن يكون الطرف شخصا واحدا وأن يكون الطرف الآخر أزيد من ذلك.

والسعي والعمل من الطرف الآخر...ويفهم من هذه الإيضاحات أنه يقتضى في المضاربة أن يكون الاشتراك في الربح، فلذلك إذا شرط للمضارب شيء من رأس المال أو مقدار من رأس المال ومقدار من الربح تفسد المضاربة (البحر والدر المنتقى)."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب السابع في حق المضاربة، الفصل الاول، ج:3، ص:426، ط:دار الجيل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعيد)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم ‌بينكم ‌بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم}،  فحظر أخذ مال كل واحد من أهل الإسلام إلا برضاه على وجه التجارة."

(سورة البقرة، ج:1، ص:183، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون...فيه ثماني مسائل:...الثالثة- من أخذ مال غيره لا على وجه إذن الشرع فقد أكله بالباطل."

(سورة البقرة، آيت:188، ج:2، ص:338، ط:دار الكتب المصرية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"قلت: عند أصحابنا البيع بالشرط على ثلاثة أوجه:...الوجه الثاني: البيع والشرط كلاهما فاسدان، وهو ‌كل ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه العقد ولا يلائمه، وفيه منفعة لأحدهما أو للمعقود عليه."

(كتاب الصلاة، باب ذكر البيع والشراء علي المنبر في المسجد، ج:4، ص:226، ط: دار احياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں