بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں نفع کے اعتبار سے اجرت رکھنے کا حکم


سوال

بھینس کالونی میں بھینسوں کے لیے راشن پہنچانا میرا کاروبار ہے، جو کہ ادھار پر چلتا ہے ،اور اس کاروبار میں تمام سرمایہ میرا ہے، میں نے اپنے دوست کو ورکنگ پارٹنر بنایا کہ وہ لوگوں سے میرے پیسے وصول کرے اور اس کے عوض نفع کا پچیس فیصد (٪25)  دینا طے ہوا۔ اب مارکیٹ میں ہمارے کافی پیسے پھنس گئے، اور پارٹنر کا کہنا ہے کہ میں پچیس فیصد ہر حال میں لوں گا، نقصان کا میں ذمہ دار نہیں۔

ہمارا نقصان اس طرح ہوا کہ کچھ لوگ بھاگ گئے اور بعض لوگ پورے پیسے دینے کے بجاۓ بعض پر راضی ہوۓ، اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کا نقصان جو ہوا ہے، کیا میرے پارٹنر پر بھی نقصان اٹھانا شرعاً لازم ہے یا نہیں؟

وضاحت: یہ ہمارا اجیر نہیں تھا بلکہ پچیس فیصد پارٹنرشپ کے ساتھ کام کرتا تھا۔

وضاحت (2): کام دونوں کرتے تھے، میں راشن فراہم کرتا تھا اور شریک مجھے بتاتا تھا کہ کس کو دینا چاہیے اور کس کو نہیں دینا چاہیے، تاکہ پیسے وصول کرنے میں آسانی ہو، یعنی کون پیسے دینے میں ٹال مٹول نہیں کرے گا اور کون پیسے لے کر نہیں بھاگے گا وغیرہ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا شریک در اصل اس کا ملازم (اجیر) ہی تھا، اور سائل نے جو اس کی مزدوری طے کی تھی وہ مجہول ہے، جس کی وجہ سے یہ  معاملہ فاسد ہو گیا  تھا، اور اجارہ فاسدہ میں اجرتِ مثل لازم ہوتی ہے، یعنی عام طور پر اس طرح کے ملازم کو اس نوعیت کے کام کے لیے جو اجرت دی جاتی ہے، اسے وہ دی جاۓ،  لہٰذا سائل کے لیے لازم ہے کہ جتنی مدت اس اجیر نے سائل کے پاس کام کیا ہے،اس اجیر کو  اس کی اجرتِ مثل دے، نقصان میں اسے شریک نہیں کیا جاۓ گا۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وأما شرائطها الصحيحة فكثيرة كذا في النهاية... (ومنها) أن يكون المال مسلما إلى المضارب لا يد لرب المال فيه فإن شرطا أن يعمل رب المال مع المضارب تفسد المضاربة سواء كان المالك عاقدا أو غير عاقد."

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4، ص: 286، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو أجير."

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4، ص: 288، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌تفسد ‌الإجارة ‌بالشروط ‌المخالفة ‌لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج: 6، ص: 46، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل وقد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة وقد يكون لجهالة البدل وقد يكون بشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد فالفاسد يجب فيه أجر المثل ولا يزاد على المسمى إن سمى في العقد مالا معلوما، وإن لم يسم يجب أجر المثل بالغا ما بلغ."

(كتاب الإجارة، الباب الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارة وما لا يجوز، الفصل الأول فيما يفسد العقد فيه، ج: 4، ص: 439، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101741

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں