بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارعت کی ایک صورت کا حکم


سوال

زید اور بکر کے درمیان زراعت کے شعبے میں مل کر کام کرنے کا ارادہ ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ زید نے زمین کرایہ پر لی ، اور بکر کو مزارعت پر دے دی،  ہاری سے کام لینا اس کو کھاد مہیا کرنا اور فصل آنے پر اس کی کٹائی مزدوروں سے کرواکر فروخت کرنا سب کچھ  بکر کے ذمہ ہے، البتہ سب کاموں میں سرمایہ زید کا ہی ہوگا، اور جو نفع آئے گا وہ فریقین کے درمیان تقسیم ہوگا، اب سوال یہ ہے کہ شراکت کی یہ صورت صحیح ہےیا نہیں؟ اور اگر صحیح ہے تو شراکت کی کون سی قسم ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ مزارعت کی تین  صورتیں جائز ہیں:

1- زمین اور بیج ایک کا ہو اور بیل (یا ٹریکٹر) ومحنت دوسرے کی ہو۔

2- زمین ایک کی ہو اور بیج اور بیل اور محنت دوسرے کی ہو۔

3- زمین اور بیل (یا ٹریکٹر)  اور  بیج ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی ہو۔

اگر مذکورہ بالا صورتوں  میں  سے کوئی صورت  نہ  ہو تو مزارعت فاسد ہوجائے گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ ( زمین ، بیچ  اور دیگر تمام اخراجات  زید کی طرف سے ہوں اور بکر کی طرف سے صرف محنت (کام ) کرنا ہو) مزارعت کی مذکورہ تین جائز صورتوں میں سے تیسری صورت  ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا) صحت (لو كان الأرض والبذر لزيد والبقر والعمل للآخر) أو الأرض له والباقي للآخر (أو العمل له والباقي للآخر) فهذه الثلاثة جائزة...(قوله وكذا صحت إلخ) هذه الجمل من جملة شروطها زيلعي (قوله فهذه الثلاثة جائزة) ؛ لأن من جوزها إنما جوزها على أنها إجارة، ففي الأولى يكون رب البذر والأرض مستأجرا للفاعل وبقره تبعا له لاتحاد المنفعة؛ لأن البقر آلة له؛ كمن استأجر خياطا ليخيط له بإبرته، وفي الثانية يكون رب البذر مستأجرا للأرض بأجر معلوم من الخارج، فتجوز كاستئجارها بدراهم في الذمة وفي الثالثة يكون مستأجرا للعامل وحده. والأصل فيها أن صاحب البذر هو المستأجر، وتخرج المسائل على هذا كما رأيت زيلعي ملخصا، وقد نظمت هذه الثلاثة في بيت واحد فقلت:

أرض وبذر كذا أرض كذا عمل … من واحد ذي ثلاث كلها قبلت."

(كتاب المزارعة، ج:6، ص:278، ط: سعيد)

الهداية في شرح بداية المبتدي میں ہے:

"قال: "وهي عندهما على أربعة أوجه: إن كانت الأرض والبذر لواحد والبقر والعمل لواحد جازت المزارعة" لأن البقر آلة العمل فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط بإبرة الخياط، "وإن كان الأرض لواحد والعمل والبقر والبذر لواحد جازت" لأنه استئجار الأرض ببعض معلوم من الخارج فيجوز كما إذا استأجرها بدراهم معلومة "وإن كانت الأرض والبذر والبقر لواحد والعمل من آخر جازت" لأنه استأجره للعمل بآلة المستأجر فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط ثوبه بإبرته أو طيانا ليطين بمره "وإن كانت الأرض والبقر لواحد والبذر والعمل لآخر فهي باطلة" وهذا الذي ذكره ظاهر الرواية."

(كتاب المزارعة، ج:4، ص:338، ط:داراحياءالتراث العربى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں