بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں جس کا عمل نہ ہو اس کے لیے نفع مقرر کرنے کا حکم


سوال

میرے والدصاحب نے مجھے 50لاکھ روپے کاروبار کرنے کے لیے دیےاوریہ کہا کہ، جومنافع آئے گا اس میں سے10فیصدآپ(سائل)کا، 5فیصد بھائی کا، 2فیصد بہن کاہوگاباقی میرا(والدصاحب کا)ہوگا، ان پیسوں سے میں نے کاروبار شروع کیا، مذکورہ کاروبار میں میرا بھائی اور والدصاحب میرے ساتھ کام نہیں کرتے ہیں، بلکہ میں اکیلے کرتا ہوں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ منافع کا تناسب مذکورہ افراد کے درمیان کیا ہوگا؟  

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدنے کا کاروبارکرنے کے لیے50لاکھ سائل کو اس شرط کے ساتھ دیےکہ منافع میں سے 10فیصد سائل کے ہیں، 5فیصد سائل کے بھائی کے اور 2فیصد سائل کی بہن کے، باقی(83فیصد)میرے یعنی والد کے ہوں گے، مذکورہ معاملہ مضاربہ کا معاملہ ہےاوریہ صحیح  ہےلیکن یہ شرط لگاناکہ 5فیصد بھائی اور2فیصد بہن کا ہوگامذکورہ شرط صحیح نہیں ہے، جبکہ بہن بھائی میں سے کوئی ایک بھی مذکورہ کاروبار کرنےمیں سائل کے ساتھ شریک نہیں ہے۔  

لہذا مذکورہ کاروبار سے حاصل شدہ نفع میں سے 10فیصد سائل کے ہوں گے، باقی سائل کے والد کے ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول وذلك بألفاظ تدل عليها من لفظ المضاربة والمقارضة والمعاملة وما يؤدي معاني هذه الألفاظ بأن يقول رب المال خذ هذا المال مضاربة على أن ما رزق الله أو أطعم الله تعالى منه من ربح فهو بيننا على كذا من نصف أو ربع أو ثلث أو غير ذلك من الأجزاء المعلومة وكذا إذا قال مقارضة أو معاملة ويقول المضارب أخذت أو رضيت أو قبلت أو نحو ذلك يتم الركن بينهما هكذا في البدائع."

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:285، ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"(ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط."

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:287، ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"إذا شرط في المضاربة بعض الربح لغير المضارب ورب المال...وإن لم يشترط عمل الأجنبي فالمضاربة جائزة والشرط غير جائز ويجعل المشروط للأجنبي كالمسكوت عنه فيكون لرب المال."

(كتاب المضاربة، الباب الثاني فيما يجوز من المضاربة من غير تسمية الربح، ج:٤، ص:٢٨٩، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100800

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں