بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤئے مبارک کاحکم


سوال

 آیا کیا دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے بال مبارک موجود ہیں؟ جیسا کہ سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ اس کی حقیقت کیا ہے یہ کہاں سے حاصل ہوئے کہاں سے ثابت ہے۔ کس طرح یہ چلے آرہے ہیں۔ اور اگر یہ حقیقت میں نہیں ہیں تو اس کو روکنے کی آوازیں بلند ہوتی نظر کیوں نہیں  آتیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ حضور اقدسﷺ نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں تقسیم فرمائے تھے، رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر یوم النحر میں منیٰ میں تشریف لاکر جمرہٴ عقبہ کی رمی کے بعد اونٹوں کی قربانی کی، اس کے بعد مشہور اور صحیح قول کے مطابق معمربن عبداللہ العدوی رضی اللہ عنہ سے اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا،آپ ﷺ نے  آدھے بال تقسیم فرمائے اور آدھے  حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیے  ،اور  حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے، پھر انہی سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئے، ممکن ہے کہ اسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے میں کسی کے پاس پہنچے ہوں، اور وہ اس کے پاس موجود ہوں۔

ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپی سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے مشہور سفرنامہ ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت صلى الله علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں، لیکن مشہور یہ ہے، کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں، ان میں سرورِ دوعالم صلى الله علیہ وسلم کا جبہٴ مبارک، آپ کی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور یہ ہے، کہ وہ غزوئہ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقس شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپ کی مہرِ مبارک شامل ہیں۔‘‘

(جہانِ دیدہ، ص:۳۳۸)  

صحیح مسلم  میں ہے :

"عن انس بن مالك؛ أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم رمٰي جمرةَ العقبةِ. ثم انصرفَ الٰی البُدن فَنَحَرَها والحجامُ جالسٌ، وقال بیدہ عن رأسِه، فحَلَقَ شِقَّه الأیمنَ. فقَسَّمه فِیْمَنْ یَلیه. ثم قال: أحلِقْ الشِّقَّ الاٰخَرَ. فقال: أینَ أبوطلحةَ؟ فأعطاہُ ایَّاہُ".  

(کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ،947/2،مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن انسٍ رضى الله عنه؛ أن رسولَ اللہ صلی اللہ علیه وسلم لما حَلَقَ رأسَه کان ابوطلحةَ اوّلُ من اَخَذَ من شعرِہ."

( کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل به شعر الانسان،45/1،السلطانية)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"سوال: یہ مشہور ہے، کہ اکثر بڑے شہروں میں اور دیہات میں حضور پُرنور صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، کیا یہ درست ہے؟اور کیا اس کی تعظیم کی جائے؟

الجواب: حدیث شریف سے ثابت ہے، کہ نبیٴ کریم علیہ الصلاة والسلام نے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرماتے تھے۔ ’’فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ میں ہے: فان النبي صلي اللہ علیه وسلم حَلَقَ رأسَه، واعطي نصفَه لأبي طلحةَ ونصفَه قَسَّمَه بینَ الناسِ. تو اگر کسی کے پاس ہو تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو، تو اس کی تعظیم کی جائے، اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں، تو خاموشی اختیار کی جائے، نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے۔"

(کتاب الانبیاء والاولیاء،40/3، دار الاشاعت )

معارف الحدیث میں ہے:

"قابل اعتماد تاریخی ثبوت  اور سند کے بغیر کسی بال کو رسول اللہ ﷺ کا مؤئے مبارک قرار دینا سنگین بات  اور گناہ عظیم ہے ، اور بہر حال (اصلی ہو یا  فرضی ) اس کو  اس کی زیارت کو ذریعہ تجارت بنانا جیساکہ  بہت سی جگہوں پر ہو تا ہے بد ترین گناہ ہے ۔"

(کتا ب الحج ،427/4،دار الاشعات)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں