بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی اذان میں کلمات کے درمیان زیادہ وقفہ کرنے کاحکم


سوال

ایک مسجد میں مؤذن صاحب مغرب کی اذان میں اذان دیتے ہوئے اذان کے کلمات میں اتنا لمبا وقفہ کرتے ہیں کہ اذان 7 سے8 منٹ پر محیط ہوتی ہے، یعنی وقفہ بہت لمبا ہو جاتا ہے، موذن صاحب کو کہا کہ اتنا لمبا وقفہ کیوں کرتے ہو؟ تو کہتے ہیں مجھے خطیب صاحب نے فرمایا ہے ایسے اذان دیا کرو ، آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ اذان دو کلمات کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ کلماتِ اذان کے درمیاں اعتدال سے کام لیتے ہوئےاتنامناسب وقفہ کرنا ،جس میں اذان کا جواب سہولت کے ساتھ دیاجاسکے،سنت عمل ہے،حدسے زائد وقفہ کرنا جس سےاذان ختم ہونے کا گمان ہوجائے ایساکرنا خلافِ سنت  ہوگا اور اذان کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ مؤذن صاحب کلماتِ اذان میں مقدارِسنت سے زیادہ وقفہ کرتےہیں تو اس کا یہ عمل شرعاًدرست نہیں ہے،نیز چوں کہ مغرب کی نمازکو اول وقت میں ہی پڑھ لینا مستحب ہے، یہاں تک کہ اذان مغرب کے بعد دورکعت کی مقدارتک تاخیرکرنا بھی کراہتِ تنزیہی سے خالی نہیں ہے، لہذا مغرب کی اذان ہردوکلمات کے  درمیان حدسے زیادہ وقفہ کرنے کی صورت میں اگر مغرب کے وقتِ مستحب فوت ہونے کا  اندیشہ ہوتواتناوقفہ دینامناسب نہیں ،لہذا اعتدال سے کام لیتے ہوئے کلماتِ اذان میں بقدرِضرورت(جس میں اذان کا جواب دیاجاسکے)وقفہ کرنا چاہیے۔

''نفع المفتی والسائل بجمع متفرقات المسائل للامام الکنوی '' میں ہے:

"وفى القنية:أي مجد الأئمة الترجماني: وقف في الأذان ؛لتنحنح أو سعال لايعيد،وإن كانت الوقفة كثيرة يعيد.إنتهي''

(کتاب الصلوات ،مایتعلق بالاذان والاقامۃ والاجابۃ،ص:246،ط:دارالفاروق ۔عمان)

فتاوی تاتارخانیۃ میں ہے:

''سئل عمن يقف فى خلال الأذان ؟قال:يعيدالأذان ،قال رضي الله عنه،هذاإذكانت الوقفة كثيرة،بحيث تعد فاصلة، فأماإذاكانت الوقفة يسيرة مثل التنحنح والسعال فانه لايعيد.''

(کتاب الصلاۃ،الفصل الاذان،ج:2،ص:139،ط:مکتبہ رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

''ولم يعتبرالفصل فى المغرب بالصلاة؛لأن الفصل فى المغرب يؤدي إلى تأخيرالمغرب عن أول وقته،وهومكروه، وإذا لم يفصل بالصلاةفي المغرب بماذا يفصل؟قال أبويوسف ومحمدرحمهماالله:يفصل بجلسة خفيفة،وقال أبوحنيفه:يفصل بالسكوت.''

(کتاب الصلاۃ،الفصل الاذان،ج:2،ص:148،ط:مکتبہ رشیدیہ)

حاشیۃالطحطاوی علی الدرالمختارمیں ہے:

'' (قوله: إلی اشتباک النجوم) ظاهره أنها بقدر رکعتین لایکره مع أنه یکره أخذاً من قولهم بکراهة رکعتین قبلها۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما هو الأقل من قدرهما توفیقاً بین کلام الأصحاب… واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروه تنزیهاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً."

(حاشیہ طحطاوی ج:1،ص؛178،ط:قدیمی)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

" ولا يفصل بين الأذان والإقامة الخ" ولو بمقدار صلاة ركعتين كره ككراهة صلاة ركعتين قبلها۔۔۔قوله: "والتأخير قليلا لا يكره" أي تحريما بل يكره تنزيها وإلى إشتباك النجوم يكره تحريما."

(کتاب الصلاۃ،مدخل،ص:183،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں