بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متوفی عنہا عدت شوہر کے گھر پوری کرے گی


سوال

میرے بہنوئی کا انتقال ہوا ، ان کے دو بیٹے ہیں ،  ایک کی عمر چھ سال اور دوسرے کی عمر اڑھائی سال ہے ، میری بہن چاہتی ہے کہ وہ عدت میکے گزارے ، لیکن سسرال والے کہتے ہیں کہ وہ عدت یہیں گزارے گی ، ان کی ساس کی طبیعت خراب ہے ، ساس  سسر  اور میری بہن زمینی  منزل میں رہتے ہیں  ، میری بہن کا الگ کمرہ ہے  اور ساس سسر کا الگ کمرہ ہے اور اوپر کی منزل میں دو دیور رہتے ہیں ، میری بہن وہاں بہت پریشانی میں ہے  ؛ کیونکہ ان کی  ساس نفسیاتی مریضہ ہے اور بولتی رہتی ہے ،   نیز  بچے بھی چھوٹے ہیں ، وہ گھر سے باہر جاتے ہیں ، ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے ، ایسی صورتِ حال میں میری بہن کا وہاں رہنا کیسے ہے ؟

باپ کے انتقال کے بعد بچے ماں کے پاس رہیں گے یا دادا دادی کے پاس ؟دورانِ عدت عورت پردے میں اپنے سسرال سے میکے جاسکتی ہے  ؟نیز  شرعاً اس کے لیے کوئی دن چالیسواں وغیرہ مقرر ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کی بہن پر شرعاً اپنے شوہر کے گھر پردے کے اہتمام کے ساتھ   عدت پوری کرنا لازم ہے ،  مذکورہ وجوہات کی بناء پر سائل کی بہن عدت گزارنے کے لیے میکے نہیں جاسکتی ہے۔ہاں اگر وہاں عزت اور عفت کے ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ، تو  پھر میکے میں جاکر عدت گزارنے کی اجازت ہو گی ۔

بیٹے کی سات برس  تک اوربیٹی کی نو سال  کی عمر  ہونے تک ،پرورش کا   حق  سائل  کی بہن (بچوں کی ماں)کو ہے،بشرط یہ کہ اس دوران وہ بچوں کے غیر محرم سے نکاح نہ کرے ،جب بچے  مذکور ہ عمر کو  پہنچ جائیں ،تو اس کے بعد دادا    کو اپنے زیر تربیت لینے کا حق  ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها (طلقت) أو مات وهي زائرة (في غير مسكنها عادت إليه فورا) لوجوبه عليها(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه،(قوله: في الجديدين) أي الليل والنهار فإنهما يتجددان دائما۔"

(باب العدۃ : 3/536 ، ط : سعید)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(هي للأم ولو بعد الطلاق ما لم تتزوج) يعني بزوج آخر غير محرم للطفل۔"

(باب الحضانۃ : 1/410 ، ط : دار إحياء الكتب العربية)

الاختيار لتعليل المختارميں ہے:

"قال: (ومن لها الحضانة إذا تزوجت بأجنبي سقط حقها) لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «أنت أحق به ما لم تنكحي۔"

(فصل فی الحضانۃ :4/15 ،ط : مطبعة الحلبي - القاهرة)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى يحتاج إلى تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف وما ذكره المصنف من التقدير بسبع قول الخصاف اعتبارا للغالب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوله وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى۔"

 (باب الحضانۃ : 4/184 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)

حاشية ابن عابدين میں ہے :

"(والجد بمنزلة الأب فيه) فيما ذكر (قوله: فيما ذكر) أي من أحكام البكر والثيب والغلام والتأديب۔"

(باب الحضانۃ : 3 / 569 ، ط : سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں