بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

متولی سے مسجد کے پیسے چوری ہوجائیں


سوال

اگر کسی متولی  سے مسجد کے پیسے چوری ہو جائیں  تو   اس کا ازالہ  کیسے  ممکن ہو ، جب کہ یہ بھی نہیں پتا  کہ وہ پیسے کتنے تھے؟

جواب

مسجد   کا  پیسہ  متولی  کے  پاس امانت ہے اگر متولی کی جانب  سے اس  پیسے  کی  حفاظت میں کوئی غفلت اور کوتاہی  نہیں کی گئی تو اس صورت میں متولی کے ذمے  چوری  شدہ   رقم کا تاوان نہیں  ہے ،  اور  اگر متولی نے اس رقم کی مناسب  رکھوالی  نہیں کی یا اس رقم میں تبدیلی  کی یا اس رقم کو اپنی رقم  کے  ساتھ  مخلوط  کردیا تو اس پر تاوان   لازم   ہے ، اس صورت  میں اگر رقم یاد نہیں ہے تو  اندازہ  کرکے کچھ زیادہ رقم مسجد کے فنڈ  میں جمع کردیا جائے۔

الدر مع الرد(664/5):

"أمانة) هذا حكمها مع وجوب الحفظ والأداء عند الطلب واستحباب قبولها (فلاتضمن بالهلاك) إلا إذا كانت الوديعة بأجر أشباه معزيا للزيلعي (مطلقًا) سواء أمكن التحرز أم لا، هلك معها شيء أم لا لحديث الدارقطني: «ليس على المستودع غير المغل ضمان»."

و فیہ ایضا(269/2):

"و كذلك المتولي إذا كان في يده أوقاف مختلفة وخلط غلاتها ضمن."

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144207200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں