بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ بہو کا اپنے سسر سے نکاح جائز نہیں


سوال

کوئی بندہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا وہ طلاق شدہ لڑکی اپنے سسر سے شادی کر سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیٹا جب کسی عورت سے نکاح  کرے چاہیے وہ اس سےصحبت کرے یا نہ کرے وہ عورت ہمیشہ کے لیے اپنے سسر پر حرام ہوجاتی ہے ،لہذا    بہو  مطلقہ   ہونے کے بعد بھی اپنے سسر سے نکاح نہیں کرسکتی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: 

"{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (23)}سورہ النساء

ترجمہ:"تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں   اور تمہاری بہنیں   اور تمہاری پھوپھیاں   اور تمہاری خالائیں   اور بھتیجیاں اور بھانجیاں   اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں   اور تمہاری بیبیوں کی مائیں   اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں  جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو   اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اورتمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں  اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔"(بیان القرآن ، سورۃ النساء آیت :23)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحرم(وزوجة أصله وفرعه مطلقا) ولو بعيدا دخل بها أو لا..(قوله: وزوجة أصله وفرعه) لقوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] وقوله تعالى {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم} [النساء: 23] والحليلة الزوجة وأما حرمة الموطوءة بغير عقد فبدليل آخر وذكر الأصلاب لإسقاط حليلة الابن المتبنى لا لإحلال حليلة الابن رضاعا فإنها تحرم كالنسب بحر وغيره...(قوله: ولو بعيدا إلخ) بيان للإطلاق أي ولو كان الأصل أو الفرع بعيدا كالجد، وإن علا وابن الابن، وإن سفل. وتحرم زوجة الأصل والفرع بمجرد العقد دخل بها أو لا".

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:31، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(والثالثة) ‌حليلة ‌الابن وابن الابن وابن البنت وإن سفلوا دخل بها الابن أم لا. ولا تحرم ‌حليلة ‌الابن المتبنى على الأب المتبني هكذا في محيط السرخسي".

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج:1، ص:274، ط:دار الفكر بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

"تحرم عليه امرأة أبيه وامرأة ابنه وإن بعد الأب والابن بأن كان أب الأب أو أب الأم أو أب أم الأب، وإن علا أو كان ابن الابن".

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:2، ص:103، ط:دار الكتاب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں