بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ بیوی کو میراث میں سے کچھ دینا


سوال

طلاق کے بعد شوہر اپنی سابقہ بیوی کو بطور ہدیہ میراث میں سے کچھ دے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

شوہر اپنی زندگی میں اپنی سابقہ بیوی کو  اپنی جائیداد میں سے کچھ ہدیہ  کرسکتاہے۔اگر سوال سے مقصد کچھ اور ہو تو دوبارہ دریافت کرلیا جائے۔واللہ اعلم

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرجل إذا طلق امرأته طلاقا رجعيا في حال صحته أو في حال مرضه برضاها أو بغير رضاها ثم مات وهي في العدة فإنهما يتوارثان بالإجماع وكذا إذا كانت المرأة كتابية أو مملوكة وقت الطلاق فأسلمت في العدة أو أعتقت في العدة فإنها ترث كذا في السراج الوهاج ،ولو طلقها طلاقا بائنا أو ثلاثا ثم مات وهي في العدة فكذلك عندنا ترث، ولو انقضت عدتها ثم مات لم ترث وهذا إذا طلقها من غير سؤالها فأما إذا طلقها بسؤالها فلا ميراث لها."

(کتاب الطلاق،الباب الخامس فی طلاق المریض،ج:1،ص:462،ط:رشیدیہ)

الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، ج: صفحہ: 655 و656، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(كتاب الوصایا،الباب الاول فی تفسیر الوصیۃ،ج:6،ص:90،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں