بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکفین حضرات کا حدود مسجد سے باہر سیڑھیوں سے مسجد کی دوسری چھت پر جانے کا حکم


سوال

(1)ایک مسجد کی حدودو اربعہ کے اندر استنجاء خانے،وضوخانے،اورساتھ دوسری اور تیسری منزل تک سیڑھیاں بھی ہیں،لیکن سیڑھیاں استنجاء خانے یا وضو خانے کے اوپر نہیں ہیں،گزشتہ نو یا آٹھ سال سےمعتکفین حضرات نیچےمسجد میں اور دوسری منز ل پراعتکاف کرتے تھے، جب کہ  کھاناوغیر ہ دوسری منزل پرکھاتے تھے،اب مسجد کےدوسرے متولی صاحب فرماتے ہیں کہ سیڑھیاں مسجد کا حصہ نہیں ہیں ؛اس لیے اوپر جانے اورکھاناکھانے سے اعتکاف باطل ہوجاتاہے،خاکہ تصویروں کی شکل میں موجود ہے،جس کا حاصل یہ ہےکہ مذکورہ سیڑھی کی چارسمتوں میں سے ایک سمت میں گیٹ ہے ،دوسری سمت میں واش روم ہے،تیسری سمت میں کچھ خالی جگہ ہے،جہاں نماز نہیں ہوسکتی ہے،جب کہ چوتھی سمت جوکہ جنوب میں ہے،مسجدسے متصل ہے۔

قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں،کہ سیڑھی مسجد سے خارج ہے یانہیں؟

(2)اگر مسائل نہیں توجن لوگوں نے سیڑھی کو مسجد کاحصہ سمجھ کر وہاں سے آتے جاتے رہیں،ان کےاعتکاف کا کیا حکم ہے؟

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں  مسجد کی مذکورہ سیڑھی، جس کی چارسمتوں میں سے تین سمتیں مسجد شرعی کی حدود سے باہر ہیں ،اور ایک سمت مسجدسے متصل ہے ،جس  کی بناء پر مذکورہ سیڑھی مسجدشرعی کی حدود سےباہرشمارہے،اورایسی صورت میں معتکفین حضرات کاکھانے ،پینے کی غرض سے نچلی منزل سے بالائی منزل پرآمدورفت  رکھناجائز نہیں ہوگا،ایساکرنے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا،لہٰذاآئندہ کے لیے معتکفین حضرات مسجد کی کسی بھی منزل پر اعتکاف کریں،اور اسی منزل پر آدابِ مسجد کا لحاظ رکھتے ہوئے کھانے پینے کاانتظام کریں۔

(2) گزشتہ سالوں میں جو لوگ مسجد کی زمینی فلور  میں اعتکاف کررہے تھے اور وہ مذکورہ سیڑھی کےذریعےاوپر کی منزل میں کھانے،پینے کے لیےآتے جاتے رہیں،تو ان کا اعتکاف ٹوٹ گیا تھا،اور شرعی مسئلہ کا درست علم نہ ہونے کی وجہ سے عنداللہ معذور ہوں گے،اور  اب قضاء کا طریقہ یہ ہےکہ جس شخص کا اعتکاف ٹوٹ گیا تھا،ایک دن کے اعتکاف بمعہ روزہ کی قضاء کریں،خواہ رمضان میں کرےیاغیر رمضان میں،علاوہ ان پانچ دنوں کی  جن میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"‌وصعود ‌المئذنة إن كان بابها في المسجد لا يفسد الإعتكاف وإن كان الباب خارج المسجد فكذلك في ظاهر الرواية قال بعضهم هذا في المؤذن؛ لأن خروجه للآذان يكون مستثنى عن الإيجاب أما في غير المؤذن فيفسد الإعتكاف والصحيح أن هذا قول الكل في حق الكل لأنه خرج لإقامة سنة الصلاة وسنتها تقام في موضعها فلا تعتبر خارجا."

(كتاب الصوم، ‌‌باب الإعتكاف، ج:2، ص:326، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتح القدیر میں ہے:

"‌وصعود ‌المئذنة إن كان بابها من خارج المسجد لا يفسد في ظاهر الرواية. وقال بعضهم: هذا في حق المؤذن لأن خروجه للأذان معلوم فيكون مستثنى.أما غيره فيفسد اعتكافه، وصحح قاضي خان أنه قول الكل في حق الكل، ولا شك أن ذلك القول أقيس بمذهب الإمام."

(كتاب الصوم، ‌‌باب الإعتكاف، ج:2، ص:396، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافاً واجباً، أما النفل فله الخروج؛ لأنه منه لا مبطل، كما مر.

(قوله: وحرم إلخ) لأنه إبطال للعبادة وهو حرام {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]، بدائع. (قوله: أما النفل) أي الشامل للسنة المؤكدة ح.
قلت: قدمنا ما يفيد اشتراط الصوم فيها بناء على أنها مقدرة بالعشر الأخير ومفاد التقدير أيضاً اللزوم بالشروع تأمل، ثم رأيت المحقق ابن الهمام قال: ومقتضى النظر لو شرع في المسنون أعني العشر الأواخر بنيته ثم أفسده أن يجب قضاؤه تخريجاً على قول أبي يوسف في الشروع في نفل الصلاة تناوباً أربعاً لا على قولهما اهـ أي يلزمه قضاء العشر كله لو أفسد بعضه كما يلزمه قضاء أربع لو شرع في نفل ثم أفسد الشفع الأول عند أبي يوسف، لكن صحح في الخلاصة أنه لايقضي إلا ركعتين، كقولهما، نعم اختار في شرح المنية قضاء الأربع اتفاقاً في الراتبة كالأربع قبل الظهر والجمعة وهو اختيار الفضلي وصححه في النصاب، وتقدم تمامه في النوافل، وظاهر الرواية خلافه وعلى كل فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الإعتكاف المسنون بالشروع، وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبي يوسف، أما على قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه، وإنما قلنا أي باقيه بناء على أن الشروع ملزم كالنذر وهو لو نذر العشر يلزمه كله متتابعاً، ولو أفسد بعضه قضى باقيه على ما مر في نذر صوم شهر معين.
والحاصل أن الوجه يقتضي لزوم كل يوم شرع فيه عندهما بناء على لزوم صومه بخلاف الباقي؛ لأن كل يوم بمنزلة شفع من النافلة الرباعية وإن كان المسنون هو اعتكاف العشر بتمامه تأمل."

(كتاب الصوم، ‌‌باب الإعتكاف، ج:2، ص:444، ط: سعيد)

احسن الفتاوی میں ہے:

"اگر مأذنہ کادروازہ مسجد میں داخل ہے تو وہاں معتکف بہر حال ہروقت جاسکتاہے، اور اگر دروازہ مسجد سے خارج ہے تو صرف اذان دینے کی غرض سے جاسکتاہے"۔

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج: 4، ص: 508، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں