بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

متبرع کو رجوع کا حق نہیں


سوال

میرے والد صاحب کی پگڑی پر ایک دوکان تھی،جو پرچون کی تھی،والد صاحب کی طبیعت خراب ہونے کے بعد اس دوکان پر بڑے بھائی بیٹھنا شروع ہوگئے،   دوکان اور گھر کی تمام ذمہ داری بڑے بھائی پوری کرتے تھے اورہم سب کی شادیاں بھی بڑے بھائی نے کرائیں،گھر اور دوکان کا انتظام سنبھالنے کی وجہ سے اس دوکان پر تقریباً سولہ لاکھ روپے قرض ہوگئے،کچھ عرصہ  بعد بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا ،میں بڑے بھائی کے ساتھ دوکان پر بیٹھتا تھا،ان کے انتقال کے بعد دوکان میں نے چلانا شروع کردی،قرض دار مطالبہ کرنے آتے تھے ،جس کی وجہ سے  میں نے دوکان بند کردی،کچھ عرصہ بعد والد صاحب کے کہنے پر اپنے پیسوں سے دوکان کھولی اور اس میں سامان اپنے پیسوں سے ڈالا،کیوں کہ سامان تقریباً ختم ہوچکا تھا،اور قرض داروں کو بھی وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ دیتا تھا،جس سے والد صاحب بہت خوش ہوتے تھے اور طبیعت بھی سنبھل گئی تھی،کچھ عرصہ بعد والد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا،ہم نے باہمی رضامندی سے ان کا ترکہ آپس میں تقسیم کر لیا،البتہ ایک ذہنی معذور بہن تھی،  اس کو کچھ نہیں دیا تھا،اس کے بعد بھائی دوکان کی طرف آنا شروع ہوئےاور دوکان سے اپنا حصہ مانگنے لگے،جب کہ دوکان میں تمام سامان والد کے کہنے پر  میں نےاپنی  ذاتی رقم سے ڈالا تھا۔اب آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :

1۔کیا ان بھائیوں  کا اس دوکان میں کوئی  حق و حصہ ہے؟

2۔جو   دوکان والاقرض میں نے اتارا،اس رقم کو لینے کا حق رکھتاہوں؟

3۔بھائی کہہ رہے ہیں کہ پانچ سال سے آپ دوکان چلا رہے تھے، اب ہم چلائیں گے،اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ دکان کا سارا سامان اس نے اپنے ذاتی  پیسوں سے ڈالاتھاتو اس دکان میں سائل کے دیگر بھائی بہنوں کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے۔

2۔ والد کا قرض اتارنے سے قبل اگر والد صاحب یا بھائیوں کو بتادیا تھا کہ والد کا قرض اس شرط پر اتار رہا ہوں کہ یہ والد کے ذمہ  ہوگا تو اس صورت میں قرض میں دی گئی رقم والد کے ترکہ سے لینے کا  حق ہوگا ا ور اگر بغیر کسی  شرط اور  معاہدہ کے قرض اتارا تھا تو وہ سائل کی طر ف سے تبرع اور احسان ہے، سائل اس کے  واپسی  کا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے۔

3۔ دکان پگڑی  کی ہے، سائل کی والد کی ملکیت نہیں، اس لیے اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی ، البتہ جب تک یہ دکان مالک ِ دکان کو واپس نہیں کی جاتی ، اس وقت تک تمام ورثاء کو  اپنے حصوں کے بقدر  دكان سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔اس کے لیے سائل اور اس کے بھائی  باہمی رضامندی سے ترتیب مقرر کر لیں ۔ 

السنن الكبرى میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه۔"

(باب من غصب لوحا فأدخلہ في سفينۃ أو بنى عليہ جدار:،6 /166،رقم: 11545،ط: دار الكتب العلمية)

الدرالمختار و حاشیۃ ابن عابدین  میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف۔"

وفي الرد : (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف ۔"

   ( کتاب البیوع:4 / 518، ط:سعید)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

"من قضى دين غيره بغير أمره لا يكون له حق الرجوع عليه ... المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره۔"

(كتاب الكفالة: 1 / 287، ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں