بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متوقع نفع پر زکوۃ کا حکم


سوال

ہم نے کچھ رقم ایک عمارت میں  انویسٹ کی ہے، اس میں سے ابھی تک کچھ نہیں  لیا، لیکن چار سال کی مدت کے بعد وہ تقریباً دوگنی ملے گی،تو  کیا ایسی صورت میں اس کی زکوۃ دینی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو رقم تجارت    میں لگی ہوئی ہے ،اس پر تو زکوۃ ہے ،البتہ جو رقم نفع کی صورت میں ابھی تک آپ کی ملکیت میں نہیں آئی اس پر زکوۃ لازم نہیں ہے،جس وقت وہ قبضہ میں آجائے ،تو اگر  وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو ،اور اس پر سال گزر جائے ،تو اس پر زکوۃ لازم ہوگی ،باقی بہتر ہوگا کہ اپنی انویسمنٹ کے طریقہ کار کی تفصیل بتا کر ا س کا شرعی حکم بھی معلوم کرلیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وثمنية ‌المال ‌كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة."

(كتاب الزكوة ،ج:2،ص:267،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج وأما المبيع قبل القبض فقيل لا يكون نصابا والصحيح أنه يكون نصابا كذا في محيط السرخسي."

( كتاب الزكوة،ج:  1 ص نمبر :172،دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں