بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ ثلاثہ عقد ثانی کے بعد صحبت کے بغیر حلال ہوگی یا نہیں؟


سوال

میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی بیوی کو تین طلاق دےدی ، اس وقت  میری بیوی حاملہ تھی ، وضع حمل کے بعد  میں نے اس کا حلالہ کروایاجس کی تفصیل یہ ہےکہ حلالہ کے لیے جس شخص کے ساتھ نکاح کروایاتھا،  اس  کے ساتھ یہ عورت تین دن رہی لیکن ان کاآپس میں کوئی ازدواجی تعلق قائم نہ ہوا تین دن کےبعد اس شخص نے عورت کو طلاق دیدی ، اس کے بعد اس عورت نے عدت گزاری، عدت گزارنے کے بعد ہم دونوں نے دوبارہ نکاح کرلیا۔

اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت  میں جو حلالہ کیاگیاہے کیاوہ درست  ہے ؟ہم دونوں  نے جودوبارہ نکاح کیاہےاس کا شرعاکیاحکم ہے  ؟

جواب

واضح رہے کہ  جس عورت کو شوہر نے تین طلاقیں  دی ہو ں وہ اپنے شوہر پر حرمت  مغلظہ کے ساتھ حرام  ہوجاتی ہے ، تین طلاقوں کے بعد عورت عدت گزار کر اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اوردوسرا شوہر ازدواجی  تعلق قائم ہوجانے کے بعد اس عورت کو طلاق دے دے یاشوہر کا انتقال  ہوجائے  تودوبارہ عدت گزار کر عورت سابقہ  شوہر سے نکاح کرسکتی ہے ، لہذاصورت مسئولہ میں  جب آپ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی  تھیں تووہ آپ پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام  ہوچکی تھی،    جب مذکورہ عورت کا نکاح دوسری جگہ ہوااور تین دن بعد دوسرے شوہر نے طلاق دےدی ، لیکن  دونوں کے درمیان کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں ہواتواس صورت میں مذکورہ عورت پہلےشوہر(سائل) کے لیے حلال نہیں ہوئی ، لہذایہ دوبارہ باہمی نکاح  کرنا جائز نہیں ، دونوں کے درمیان فوری طورپر جدائی لازم ہے ۔

نیز واضح رہے کہ حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا سخت گناہ ،لعنت کا سبب اور مکروہ تحریمی ہے،احادیث میں ایسی شرط کے ساتھ نکاح کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾."(البقرة 230)

ترجمہ:"پھر اگرکوئی   طلاق دے دے عورت کو   توپھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہےگی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک  اور خاوند کے ساتھ نکاح کرلے۔" (ترجمہ از بیان القرآن)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: 

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين فی الأمة، لم تحل له حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا، ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها."

(کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة،فصل فیما تحل به المطلقة،ج:1،ص:473،ط:رشیدیه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة...إنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح، وهو أن تنكح زوجا غيره لقوله تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]...منها أن يكون النكاح الثاني صحيحا حتى لو تزوجت رجلا نكاحا فاسدا ودخل بها لا تحل للأول؛ لأن النكاح الفاسد ليس بنكاح حقيقة...منها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء...المراد من النكاح: الجماع؛ لأن النكاح في اللغة هو الضم حقيقة، وحقيقة الضم في الجماع، وإنما العقد سبب داع إليه فكان حقيقة للجماع مجازا للعقد مع ما أنا لو حملناه على العقد لكان تكرارا؛ لأن معنى العقد يفيده ذكر الزوج فكان الحمل على الجماع أولى...أما الحديث فما روينا عن عائشة   رضي الله عنها  أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير فأتت رسول الله   صلى الله عليه وسلم   وقالت: إن رفاعة طلقني، وبت طلاقي؛ فتزوجني عبد الرحمن بن الزبير ولم يكن معه إلا مثل هدبة الثوب؛ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي من عسيلته، ويذوق من عسيلتك...أما الإنزال فليس بشرط للإحلال؛ لأن الله تعالى جعل الجماع غاية الحرمة، والجماع في الفرج هو التقاء الختانين فإذا وجد فقد انتهت الحرمة."

(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 189، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیماتحل به المطلقة و ما یتصل به، ج: 1، ص: 473، ط: رشیدیه)

و فیہ ایضاً:

"الإيلاج في أحد السبيلين إذا توارت الحشفة يوجب الغسل على الفاعل والمفعول به أنزل أو لم ينزل وهذا هو المذهب لعلمائنا. كذا في المحيط وهو الصحيح. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كان مقطوع الحشفة يجب الغسل بإيلاج مقدارها من الذكر. كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الطهارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل، ج: 1، ص: 15، ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) التزوج للثاني (تحريمًا) لحديث: «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي۔۔۔۔۔۔ (أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي.

(قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.

وأورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. وأجاب في الفتح بأنه لا يلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، وإنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك وصار مشتهرا به اهـ تأمل."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:414، ط:سعيد)

صحیح مسلم میں ہے:

"(1433) حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، عن عبيد الله بن عمر ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة قالت: « ‌طلق رجل امرأته ‌ثلاثا، فتزوجها رجل، ثم طلقها قبل أن يدخل بها، فأراد زوجها الأول أن يتزوجها، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟ فقال: لا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول".

(كتاب النكاح، ‌‌باب لا تحل المطلقة ثلاثا لمطلقها حتى تنكح زوجا غيره، ج:4، ص:155، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت کو شوہر نے تین طلاقیں دےدیں ، اس سے کسی دوسرے مرد نے نکاح کر لیا پھر جماع سے قبل طلاق دےدی، اب پہلے شوہر نے چاہا کہ اس سے دوبارہ نکاح کرلے۔ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: نہیں ! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کا وہی مزہ نہ چکھ لے جو پہلے نے چکھا تھا ( یعنی لذت جماع جو پہلے نے حاصل کی تھی وہی دوسرا بھی حاصل نہ کرلے )۔"(تحفۃ المنعم)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں