بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر سے خلاصی کی صورت کا بیان


سوال

شادی کو 25 سال ہو گئے ،شوہر سے خلع لینا چاہتی ہوں ،شوہر نہ کمانے پر راضی ہیں، نہ زندگی سدھارنے پر راضی ہیں، میں ایک اچھے گھر کی پڑھی لکھی عورت ہوں، ٹیچر کی پڑھائی کی ہے ،جاب نہیں کرنے دیتے، بہنوں سے مانگ مانگ کر گزارہ ہوتا ہے،(الحمدللہ)دو بچے ہیں،وہ بھی مایوسی کا شکار رہتے ہیں، 15سال سے ازواجی تعلق بھی نہیں ہے، دم گھٹتا ہے، اس لئے عدالت سے خلع کے پیپر بنوائے شوہر سے دستخط کرنے کو کہا، تو انکار کرتے ہیں کہ " تیری اتنی ہمت ،کہتے ہیں کہ بچوں کے سامنے دستخط کروں گا "، اور بچے ماں باپ کی جدائی پر راضی نہیں ،بیٹی22سال کی ہے، اور بیٹا 21سال کا ہے،میں بہت گھٹن بھری زندگی جی رہی ہوں، جاہل شوہر ،تمباکو کھانے والا،بات بات پر گالیاں دینے والاسب کچھ برداشت کیا، اب نہیں ہوتا، اب میں اکیلے بچوں کے ساتھ چاہتی ہوں، کیا کروں اگر شوہر خلع کے پیپر دستخط نہ کرے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی  اب مزید شوہر کےساتھ نہیں رہنا  چاہتی، اور شوہرطلاق دینے پر راضی نہیں،تو عورت کے لیے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے، کہ وہ شوہر کو خلع کی پیش کش کرکے اپنے کو اس کے نکاح سے آزاد کرالے ،یعنی مہر کے بدلےشوہر سے خلاصی حاصل کرلے،واضح رہے کہ شرعاً خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے،نیز چوں کہ خلع طلاقِ بائن کے حکم میں ہے،اس لیے  خلع واقع ہونے کے بعد   عدت گزارنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3 ص: 441 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به، فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال، كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه، ج: 1 ص: 488 ط: رشيدية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والخلع جائز عند السلطان وغیره لأنه عقد یعتمد التراضی کسائر العقود وهو بمنزلة الطلاق بعوض."

 (كتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 6 ص: 173 ط: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں