بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معتمر کا جدہ سے مدینہ جانے کا ارادہ ہو تو اس کے لیے احرام کا حکم


سوال

اگر کوئی عمرہ کے لیے جائے، اس کا ارادہ پہلے مدینہ جانے کاہو، تو ایسی صورت میں اگر یہ شخص جدہ ایئرپورٹ پر بغیر احرام باندھے اتر کر مدینہ چلے جائے، پھر بعد میں جب مکہ کا قصد کرے تو مدینہ والی میقات سے احرام باندھ لے، یہ صحیح ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جدہ میقات میں داخل ہے اور پاکستان سے اگر جدہ کے راستے سے مدینہ منورہ جائے تو احرام کے بغیر جانانہیں چاہیے، اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی معتمر کا ارادہ جدہ اترکر پہلے مدینہ جانے کا ہو،  تو اس کے لیے جدہ ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے احرام باندھنا ضروری نہیں ہے، بغیراحرام کے جدہ ایئرپورٹ پر اتر کر مدینہ منورہ جاسکتاہے، لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جدہ سے مدینہ جانے والوں کے لیے احرام باندھنا ضروری ہے، ان کی بات درست نہیں ہے،البتہ مدینہ منورہ جانےکے بعد  جب وہاں سے مکہ مکرمہ کا رخ کرے تو  ذوالحلیفۃ  (جوکہ بیرعلی کے نام سے مشہور ہے) سے احرام باندھ لے، باقی جدہ  "حل" میں واقع ہے اور داخلِ میقات ہے، نیز احرام تب لازم ہوتاہے جب کسی کا مکہ مکرمہ / حرم میں داخل ہونے کا ارادہ ہو ۔

الدرالمختار میں ہے:

"(وحرم تأخير الإحرام عنها) كلها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة) غير الحج أما لو قصد موضعا من الحل كخليص وجدة حل له مجاوزته بلا إحرام فإذا حل به التحق بأهله فله دخول مكة بلا إحرام وهو الحيلة لمريد ذلك".

(کتاب الحج، مطلب فی المواقیت، ج:2، ص: 476، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(والمواقيت) أي المواضع التي لا يجاوزها مريد مكة إلا محرما خمسة (ذو الحليفة) بضم ففتح مكان على ستة أميال من المدينة وعشر مراحل من مكة تسميها العوام أبيار علي - رضي الله عنه - يزعمون أنه قاتل الجن في بعضها وهو كذب".

(کتاب الحج، مطلب فی المواقیت، ج:2، ص: 474، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں