میں اپنے والدین کے گھر میں تین ماہ سے موجود ہوں، مجھے 20 ستمبر سے تحریری طور پر تین طلاق دی گئی، اس سے پہلے مجھے کوئی زبانی یا تحریری طلاق نہیں دی گئی، اب سوال یہ ہے کہ مجھ پر عدت لازم ہے یا نہیں؟اگر ہے تو عدت کا خرچہ کس پر لازم ہو گا؟پچھلے تین ماہ کا خرچہ کیا میرے شوہر پر لازم ہو گا؟میرے شوہر نے جو مجھ پر خرچہ کیا ہے، مثلا منہ دکھائی کے کپڑے وغیرہ ، کیا وہ مجھے واپس کرنا لازم ہوں گے؟طلاق سے پہلے خود شوہر بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
صورت مسؤلہ میں سائلہ کو جب اس کے شوہر نے تحریری طور پر تین طلاقیں دیں تو اس سے سائلہ پر تین طلاق مغلظہ واقع ہو کر نکاح ختم ہو گیا ہے اور طلاق کی تاریخ سے سائلہ پر عدت لازم ہے،اگر سائلہ حاملہ ہے تو عدت وضح حمل ہےاور اگر سائلہ حاملہ نہیں ہے تو اس صورت میں عدت مکمل تین ماہواریاں گزارنا شرط ہے، نیز سائلہ کی عدت کا خرچہ شوہر پر لازم تب ہو گا کہ سائلہ عدت شوہر کے گھر میں گزارے یا پھر شوہر کے گھر میں باپردہ عدت گزارنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یا شوہر کی رضامندی سے میکے میں گزارے ، اسی طرح پچھلے تین ماہ کا خرچہ کے بارے میں حکم یہ ہے کہ پہلے سے اگر عدالت نے وہ نان نفقہ متعین کیا تھا یا میاں بیوی نے آپس کی رضامندی سے طے کیا تھا تو اس صورت میں سائلہ اپنے شوہر سے گذشتہ 3 ماہ کے خرچے کا مطالبہ کرسکتی ہے اورشوہر کے ذمہ ان 3ماہ کا خرچہ قرض ہے اور اگر پہلے سے عدالت کی طرف سےوہ خرچہ متعین نہیں تھا اور نہ میاں بیوی نے آپس کی رضامندی سے طے کیا تھا، تو ایسی صورت میں اب سائلہ اپنے شوہر سے ان گذشتہ 3 ماہ کے خرچے کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی شوہر پر وہ خرچہ ادا کرنا لازم ہے، تا ہم اس کے باوجود شوہر اگر پچھلے تین ماہ کا خرچہ دے دے تو یہ اس کی طرف سے احسان و تبرع ہو گا، باقی منہ دکھائی کے موقع پر دی جانے والی تمام اشیاء سائلہ کی ملکیت ہیں، طلاق کے بعد شوہر کو لوٹانا لازم نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها، كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، ج:1، ص:532، ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر )
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) القول (لها) بيمينها (في المهيإ له) كخبز ولحم مشوي لأن الظاهر يكذبه ولذا قال الفقيه: المختار أنه يصدق فيما لا يجب عليه كخف وملاءة لا فيما يجب كخمار ودرع، يعني ما لم يدع أنه كسوة لأن الظاهر معه ، قوله لأن الظاهر يكذبه) قال في الفتح: والذي يجب اعتباره في ديارنا أن جميع ما ذكر من الحنطة واللوز والدقيق والسكر والشاة الحية وباقيها يكون القول فيها قول المرأة لأن المتعارف في ذلك كله أن يرسله هدية والظاهر معها لا معه، ولا يكون القول إلا في نحو الثياب والجارية اهـ. قال في البحر: وهذا البحث موافق لما في الجامع الصغير، فإنه قال إلا في الطعام الذي يؤكل فإنه أعم من المهيأ للأكل وغيره اهـ. قال في النهر: وأقول وينبغي أن لا يقبل قوله أيضا في الثياب المحمولة مع السكر ونحوه للعرف. اهـ. قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."
(کتاب النکاح، باب المہر، ج:3، ص:153، ط:سعید)
تحفة الفقہاء میں ہے:
"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن}."
(كتاب الطلاق، باب العدة ، ج:2، ص: 244، 245،ط. دار الكتب العلمية،بيروت )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان ... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية . ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ... وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة، ج:1، ص:558، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، كبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، كذا في الجوهرة النیرة."
( كتاب الطلاق، الباب التاسع عشر فی النفقات، ج:1 ص:544 ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"ولو خاصمته امرأته في نفقة ما مضى من الزمان قبل أن يفرض القاضي عليه لها النفقة لم يكن لها شيء من ذلك عندنا. وعلى قول الشافعي - رحمه الله تعالى - يقضى لها بما لم تستوف من النفقة الماضية. وأصل المسألة أن النفقة لا تصير دينا إلا بقضاء القاضي، أو التراضي عندنا. وعند الشافعي تصير دينا...وحجتنا في ذلك أن النفقة صلة والصلات لا تتأكد بنفس العقد ما لم ينضم إليها ما يؤكدها، كالهبة والصدقة من حيث إنها لا تتم إلا بالقبض..فعرفنا أن طريقه طريق الصلة، وتأكدها إما بالقضاء، أو التراضي ولأن هذه نفقة مشروعة للكفاية فلا تصير دينا بدون القضاء، كنفقة الوالدين والمولودين لا تصير دينا بمجرد مضي الزمان فكذا هنا."
(كتاب النكاح، باب النفقة،ج: 5، ص:184، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102310
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن