بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کے عدت کا خرچہ کس پر ہے؟


سوال

 میرے بھائی نے 2 مہینے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، اب لڑکی والے لڑکی کا عدت کے خرچے کا بول رہے ہیں، کیا  یہ خرچہ  لڑکے کے اوپر لازمی ہے؟ اگر ہے تو کتنی رقم بنتی ہے؟ اس کی شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں طلاق کن الفاظ سے دی  اور کتنی بار کہا ہے؟ اس  وضاحت کے بعد طلاق کے حکم  کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے۔

البتہ عدت  کے خرچے کے بارے  میں شرعی حکم  یہ  ہے:

طلاق دینے کی صورت میں عدت کا خرچہ شرعًا مرد کے اوپر لازم ہے، البتہ اس کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بلکہ اس میں مرد اور عورت کی مالی  حالت کا اعتبار ہے، جتنا شوہر کی  وسعت ہو اور عورت کی ضرورت پوری ہوسکے اسی کے بقد ر نان نفقہ واجب ہے؛  لہٰذا شوہر کی آمدنی اور عورت کے ضروری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے خرچہ متعین کرلیا جائے، نیز فقہاء کرام نے یہ بھی لکھا ہے،عدت کے نان نفقہ کی وہی مقدار ہے جو شوہرقبل از طلاق  د یتا تھا۔

واضح رہے کہ عدت شوہر کے گھر میں گزارنا واجب ہے اور عدت کے لیے باپردہ ماحول کے ساتھ رہائش فراہم کرنا  اور نان نفقہ ادا کرنا شوہر پر لازم ہے ،لہذا اگر مطلقہ عدت کے ایام شوہر کے گھر میں گزارے یا شوہر کی رضامندی سے میکے میں گزارے تو دونوں صورتوں میں عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم ہے اور اگر مطلقہ  شوہر کی طرف سے باپردہ عدت کی سہولت فراہم کرنے کے باوجود شوہر کے رضامندی  کے بغیر کسی اور جگہ چلی گئی ،تو عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم نہیں،لیکن اس کے باوجود شوہر اگر عدت کا خرچہ دے تو یہ اس کی طرف سے احسان وتبرع ہوگا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

 {أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ  وَ اِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ... لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُه فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا} [الطلاق:6/7]

ترجمہ: تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو  اور ان کو تنگ کرنے کے لیے (اس کے بارے میں ) تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا ) خرچ دو  ۔۔۔  (آگے بچہ کے نفقے کے بارے میں ارشاد ہے کہ ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کودیا ہے ۔ خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت وحاجت روائی سہی) ۔
فائدہ:  یعنی عدت میں سکنی بھی مطلقہ کا واجب ہے ، البتہ طلاق بائن میں ایک مکان میں خلوت کے ساتھ دونوں کا رہنا جائز نہیں،  بلکہ حائل ہونا ضرور ہے۔ (ترجمہ و فائدہ از بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان ... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية . ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ...  وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة،  ج:1، ص:558، ط: دار الفكر)

البحر الرائق  ميں  هے:

"المعتدة إذا خرجت ‌من ‌بيت ‌العدة تسقط نفقتها ما دامت على النشوز فإن عادت إلى بيت الزوج كان لها النفقة و السكنى، ثم الخروج عن بيت العدة على سبيل الدوام ليس بشرط لسقوط نفقتها فإنها إذا خرجت زمانا وسكنت زمانا لاتستحق النفقة."  

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:4، ص:217، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں