میرے شادی کو 16سال ہوگئےہیں، پانچ سال پہلے میرے شوہرنے مجھے تین بار الگ الگ صورت حال میں طلاق دی تھی ،پہلی بار کہا تھا،"جا میں تجھے طلاق دیتا ہوں"دوسری بار کہا "میں نے تمہیں طلاق دی "اور تیسری بار میں کہا "میں تمہیں طلاق دے رہاہوں"، اب اس گھر سے نکل جاؤپھر گھر والوں کے فیصلے پراس نے رجوع کرلیاتھا،اب پچھلے ہفتے ہماری آپس میں لڑائی کے دوران اس نے میرا پورا نام لےکر دوبار طلاق دی، مجھےاور میرے بچوں کے سامنے اس نے مجھے دوبار طلاق دی، اوراپنے گھر والوں کے سامنے کہہ رہاہے کہ "میں نے ایک بار طلاق دی ہے۔
1۔اب بتائیں کہ آگے کیادوبارہ ساتھ رہنے کی گنجائش نکلتی ہے؟
2۔ہمارے بچے بھی ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ ایک گھر میں بچوں کی خاطر ہم الگ الگ کمروں میں رہیں؟
وضاحت: پہلی اور دوسری با رطلاق کے بعد ہم ساتھ ہی رہتے تھے،شوہر نے زبانی طور پر رجوع کے الفاظ نہیں کہے لیکن میاں بیوی والا تعلق قائم ہوا تھا،اب نکاح کا کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون کےشوہر نے پانچ سال قبل جب اسے یہ الفاظ کہے تھے،کہ "جا میں تجھےطلاق دیتاہوں"،"میں نے تمہیں طلاق دی" ، "تمہیں طلاق دے رہاہوں" تو ان الفاظ سے کہتے ہی مذکورہ خاتون پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں،اور وہ شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی، شوہر کے لیےمطلقہ بیوی ہے رجوع کرنایا وہ دوبارہ نکاح کرناحرام تھا،لہذا مذکورہ شخص نے گھروالوں کے کہنے پر جو رجوع کیا تھا،وہ شرعاًحرام تھا، دونوں میاں بیوی کا رشتہ پانچ سال پہلے ہی ختم ہوچکا ہے، لہذا ایک دوسرے سے الگ ہوناضروری ہے، جس کےبعد مذکورہ خاتون اپنی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور ماہواری آتی ہو، اگر ماہواری نہ آتی ہو، تو تین ماہ، اگر حمل ہو،تو بچےکی پیدائش تک)گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
2۔سائلہ کا اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہوئےچوں کہ فتنہ کا قوی اندیشہ ہے ؛ اس لیے ایک گھر میں رہنےکی گنجائش نہیں ہے۔
قرآن مجید میں ہے :
"فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ."(البقره ، آیت نمبر۲۳۰)
ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے سے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ "(بیان القرآن)
حدیث مبارک میں ہے:
"عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."
(صحيح البخاری، كتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، 2/ 300، ط:رحمانية)
ترجمہ: ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔‘‘
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] "
(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن،ج:3،ص:187،ط:دارالکتب العلمیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق باب الرجعة، ج :1، ص:473، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.
وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ج : 3، ص : 538، ط : سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102996
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن