بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کا رشتہ داروں کے گھر عدت گزارنا


سوال

کیا عدت شدہ بیوی کا اپنے شوہر کی وفات والے گھر میں عدت گزارنا ضروری ہے؟ یا کسی قریبی رشتہ دار کے گھر بھی وہ وقت گزار  سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  طلاق ہو جانے کے بعد مطلقہ خاتون پر اپنے شوہر کے  گھر عدت گزارنا لازم ہے،یعنی جس گھر میں وہ طلاق کے وقت رہائش پذیر تھی اسی گھر میں رہے گی، بلاضرورت شدیدہ عدت گزارنے کے لیے رشتہ داروں کے گھر جانا شرعاً ناجائز ہے، ہاں اگر سخت مجبوری ہو، مثلا :گھرگر جائے، یا ورثاء عورت کو گھر سے نکال دیں، یا اس کی جان، مال ، عزت کو خطرہ لاحق ہو، تو ایسی صورت میں یہ خاتون اپنے اس گھر کے  قریب ترین رشتہ داروں کے گھر  منتقل ہوسکتی ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌وتعتدان في بيت وجبت فيه إلا أن تخرج أو ينهدم) أي تعتد المتوفى عنها زوجها إن أمكنها أن تعتد في البيت الذي وجبت فيه العدة بأن كان نصيبها من دار الميت يكفيها أو أذنوا لها في السكنى فيه، وهم كبار... وقوله إلا أن تخرج أو ينهدم أي إلا أن يخرجها الورثة يعني فيما إذا كان نصيبها من دار الميت لا يكفيها أو ينهدم البيت الذي كانت تسكنه فحينئذ يجوز لها أن تنتقل إلى غيره للضرورة، وكذا إذا خافت على نفسها أو مالها أو كانت فيه بأجر، ولم تجد ما تؤديه جاز لها الانتقال."

[كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3 ص:37 ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی  ميں هے:

"(و تعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(باب العدة، فصل في الحداد، ج:3 ص:536 ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں