بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ رہنے والے سے بات چیت بند کرنا


سوال

میرے کزن نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دیں اور اس کی بیوی نے اس طلاق کی تصدیق بھی کر دی، پھر بعد میں خیال آیا کہ یہ غلط ہو گیا، سنی علماء سے مسئلہ پوچھا، بتایا کہ طلاق ہو گئی ہے، یہ مطمئن نہیں ہوئے اور اہل حدیث عالم سے مذکورہ مسئلہ پوچھا، انہوں نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی، کیا ہم اپنے مفاد کے لیے کسی دوسرے عالم سے فتویٰ لے سکتے ہیں؟اور ہم ان سے تعلقات رکھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو جن رشتے داروں نے ان سے تعلقات رکھے ہیں ان سے ہم مل سکتے ہیں یا نہیں ؟کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جمہور صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ،اور ائمہ مجتہدین کے نزدیک  اکٹھی دی گئیں تینوں طلاقیں تین طلاقیں ہی ہوتی ہیں، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، البتہ روافض اور غیر مقلدین کے نزدیک تین طلاق ایک طلاق ہوتی  ہے، اور جمہور کے مقابلے  میں ان کا یہ قول معتبر نہیں ہے۔

لہذا تین طلاقیں دینے کے باوجودمطلقہ  بیوی کو ساتھ رکھنا شرعاً سخت گناہ اورحرام ہے اور چاروں مذاہب کے متفقہ فیصلہ کے  خلاف ہے، مطلقہ ثلاثہ کو اپنے پاس رکھنے والاشخص حرام کاری کامرتکب ہے، اور ایسے لوگ جو علانیہ گناہوں کاارتکاب کرنے والے ہوں اوراپنے عمل سے باز نہ آتے ہوں ان سے میل جول،بات چیت ترک کردیناشریعت میں ثابت ہے،  لہذا   ایسے شخص کوراہِ راست پر لانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیارکرناچاہیے،اور سمجھانے کے باوجودایساشخص جب تک باز نہیں آتااور علیحدگی اختیار نہیں کرتا ، اس  کی اصلاح کی غرض سے اس سے میل جول  اور تعلقات ختم کردینےچاہیے، اور مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، جن لوگوں نے ان لوگوں سے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں ان سے بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

پھر تین طلاق دینے کے بعد دوسرا مسلک اختیار کر لینا یا دوسرے مسلک کے علماء سے فتویٰ لے کر اس پر عمل کرنا نہایت خطرناک ہے؛ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیاوی اغراض کی خاطراپنے مذہبِ حقہ کو چھوڑتا ہے ،تو موت  کے وقت ایمان کے سلب ہونے کا خطرہ ہے اور  عدالت ایسے شخص کو تعزیری سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے، لہذا ایسے کرنے والے کو اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے اور اپنے اس فعل سے توبہ کرنی چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر، سراجية".

"مطلب فيما إذا ارتحل إلى غير مذهبه

(قوله: ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر) أي إذا كان ارتحاله لا لغرض محمود شرعًا، لما في التتارخانية: حكي أن رجلاً من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، ويرفع يديه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعد ما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النكاح جائز ولكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حق عنده وتركه لأجل جيفة منتنة، ولو أن رجلاً برئ من مذهبه باجتهاد وضح له كان محمودًا مأجورًا."

 (کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب فیما إذا ارتحل إلى غير مذهبه، جلد:4، صفحہ: 80، طبع: مکتبه:ایچ ایم سعید)

عمدۃ القاری میں ہے:

"باب ما يجوز من الهجران لمن عصى

أي هذا باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام فمن كان جرمه كثيرًا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان، فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه، كما فعلت عائشة في مغاضبتها مع رسول الله صلي الله عليه وسلم".

( كتاب البر والصلة ، باب ما يجوز  من الهجران لمن عصى، جلد:22، صفحہ: 225، طبع:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں