بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ ثلاثہ عدت کہاں گزارے گی؟ اور معتدہ ثلاثہ کا نان ونفقہ کس کے ذمہ ہے؟


سوال

میرے بڑے صاحب زادے کی شادی 24مارچ 2017 میں ہوئی تھی، شروع سے اب تک بیٹاور بہو UAEمیں مقیم ہیں، اور اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں، ابتدائی ایک دو سال دونوں نے مل جل کر اچھی زندگی گزاری،  لیکن اس کے بعد آپس میں رنجشیں بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ روزانہ کسی نہ کسی بات پر بحث و تکرار ہوجاتی اور گھنٹوں تک جاری رہتی، بدقسمتی سے حالات کو سدھارنے کے بجائے بگاڑنے میں گھر سے باہر کا عمل دخل پچھلے کچھ عرصہ سے نمایا ں رہا، اب نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ایک ماہ سے وہاں الگ الگ رہ رہے ہیں (والدین ساتھ نہیں ہے) دونوں معاشی طور پر خود کفیل ہیں۔4 فروری 2022ء کو رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے بہو ہمارے بیٹے کے گھر آئی مگر بیٹے نے اندر آنے نہیں دیا تو بہو نے شور مچانا شروع کردیا اور پولیس کو فون کردیا، مگر پولیس کے آنے سے قبل بحث و تکرار بہت بڑھ گئی اور بیٹے نے تین مرتبہ بہو کو زبانی تین طلاق دے دی، الفاظ یہ تھے "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" بعد میں پولیس نے بھی بہو کی سرزنش کی کہ اتنی رات گئے وہ یہاں کیوں آئی ؟ اور اسے واپس بھیج دیا، اور بیٹے نے پولیس کو بتایا کہ اس نے تین مرتبہ اس کو طلاق دی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دونوں اب ساتھ نہیں رہ سکتے، بیٹے نے صاف انکار کردیا ہے اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں، مگر بہو اور اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی اور بضد ہیں کہ بہو کو واپس لایا جائے۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1:۔ کیا بیٹے کے اس طرح کہنے سے طلاق واقع ہوگئی ہے اور عدت لاگو ہوگئی ہے؟

2: اگر بہو کسی دوسری جگہ عدت گزارتی ہے تو اس کا نان ونفقہ بیٹے پر لازم ہوگا یا نہیں؟ ان دونوں کے کشیدہ تعلق کے پیشِ نظر یہ ممکن نہیں کہ دونوں ساتھ رہیں، گھر میں کوئی تیسرا فرد بھی نہیں رہتا۔

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیٹے نے جس وقت اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ : "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتاہوں" تو اسی وقت سائل کے بیٹے کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، سائل کی بہو اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کےساتھ حرام ہوچکی تھی، اب نہ رجوع ہوسکتاہے اور نہ دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ، سائل کی بہو  اپنی عدت (اگر حاملہ نہ ہو تو تین ماہواریاں اور اگر حاملہ ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر  دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

2: سائل کی بہو سائل کے بیٹے کے گھر میں پردے کے ساتھ عدت گزارے ، اگر گھر تنگ ہو جس میں باپردہ عدت گزارنے کا ماحول نہیں، تو پھر شوہر دوران عدت دوسری جگہ رہے اور بہو عدت گزارے ،عدت کی مدت کا نان و نفقہ شوہر پر لازم ہوگا، لیکن اگر عدت کےلیے گھر میں باپردہ ماحول فراہم کرنے کے باوجود عورت کہیں  دوسری جگہ عدت گزارتی ہو تو شرعاً عدت کے نان و نفقہ  کی حق دار نہیں ہوگی ۔ 

فتاوى شامي میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) .... (ولا بد من سترة بينهما في البائن) لئلا يختلي بالأجنبية، ومفاده أن الحائل يمنع الخلوة المحرمة (وإن ضاق المنزل عليهما، أو كان الزوج فاسقا فخروجه أولى) لأن مكثها واجب لا مكثه، ومفاده وجوب الحكم به ذكره الكمال"

وفي الرد:

"(قوله: أي معتدة طلاق وموت) قال في الجوهرة: هذا إذا كان الطلاق رجعيا فلو بائنا فلا بد من سترة إلا أن يكون فاسقا فإنها تخرج اهـ فأفاد أن مطلقة الرجعي لا تخرج ولا تجب سترة ولو فاسقا لقيام الزوجية بينهما ولأن غايته أنه إذا وطئها صار مراجعا (قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية".

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ج:3، ص:436، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا طلقها ثلاثا أو واحدة بائنة وليس له إلا بيت واحد فينبغي له أن يجعل بينه وبينها حجابا حتى لا تقع الخلوة بينه وبين الأجنبية، فإن كان فاسقا يخاف عليها منه فإنها تخرج وتسكن منزلا آخر، وإن خرج الزوج وتركها فهو أولى، وإن أراد القاضي أن يجعل معها امرأة حرة ثقة تقدر على الحيلولة فهو حسن كذا في المحيط".

(کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر فی الحداد، ج:1، ص:535، ط:رشيدية)

وفيہ ایضاً:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة".

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثالث فی نفقة المعتدة، ج:1،ص:557، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں