بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ ممانی سے شادی کرنا


سوال

تقریبا 2015 سے میرا ایک مسئلہ چل رہا ہے،  2015 میں میں نے پہلی شادی اپنے خاندان میں اپنی کزن سے کی ،تقریبا سات سال ہو گئے ہیں کہ ہمارے درمیان مسلسل ناراضگی ہے، اور بات چیت بھی بند ہے ، پھر میں دو سال کے لیے سعودیہ چلا گیا،  اس شادی سے میرا ایک بیٹا ہے،  جو اپنے نانا کے پاس رہ رہا ہے،  2018 میں میں سعودیہ سے واپس آیا ،اور میں نے اپنی مرضی سے دوسری شادی کی،  جس پر  خاندان والے اور میرے ماں باپ سب ناراض تھے،  میں نے یہ  دوسری شادی اپنے ماموں کی طلاق یافتہ بیوی سے کی،  جس کے پہلے سے پانچ بچے ہیں،  ماموں  کو طلاق دیے تین سال ہو چکے تھے،  ہماری زندگی اچھی گزر رہی ہے،  لیکن میرے والد خوش نہیں تھے،  ان کا کہنا تھا کہ پہلی بیوی سے صلح کرو،  اور دوسری بیوی کو طلاق دو، اب میرے والد  کا انتقال ہو چکا ہے، والدہ میری دوسری بیوی سے خوش ہے، خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ماموں  کی بیوی سے بھانجے کی شادی ایک غیر اسلامی طریقہ ہے۔

اب میں ایک الجھن میں پھنس گیا ہوں،  ہمیں شریعت کی روشنی میں ایک فتوی چاہیے کہ میری پہلی بیوی ناراضگی کی وجہ سے آنا نہیں چاہتی،  اس کا کیا کیاجائے؟ جبکہ میں   اس پہلی بیوی کے پاس  تین دفعہ  صلح کےلیےجا چکا ہوں۔

نیزمیری دوسری بیوی سے خاندان خوش نہیں ہے،  والد صاحب بھی ناراضگی کی حالت میں دنیا سے چلے گئے،  اور والد صاحب نے بھائیوں کو کہا تھا کہ اس دوسری بیوی سے کوئی لین دین نہ رکھنا،  اور نہ اس کی حمایت کرنا،  شر عاًاس کا کیا حل نکالا جائے؟ اسی طرح  خاندان والوں کا دوسری شادی کو غیر اسلامی کہنا کیساہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی دوسری بیوی کے ساتھ سائل کاکوئی اور حرمت کا رشتہ نہ ہو، توسائل کا نکاح اس کے ساتھ درست ہے،شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ،خاندان والوں کا محض ماموں کی سابقہ بیوی ہونے کی بنیاد پر اس کے ساتھ شادی کو غیر اسلامی شادی کہنا نادانی اور لاعلمی ہے۔اسی طرح سائل کے بھائیوں کو بھی چاہیے کہ وہ مذکورہ شادی کی بنیاد پرسائل سے اور  اس کی دوسری بیوی سے بلاوجہ متنفر نہ ہوں۔

نیز سائل کو چاہیے کہ وہ پہلی بیوی کو دوبارہ گھر بسانے پر آمادہ کریں، اور اگر سائل خود کوئی مناسب تدبیر نکالنے میں کامیاب نہ ہوں، تو خاندان کے بزرگ حضرات کے واسطہ سے اپنی پہلی بیوی کو منانے کی پوری کوشش کریں۔

لمعات التنقیح میں ہے:

"عن ابن عمر قال: ‌كانت ‌تحتي ‌امرأة ‌أحبها وكان عمر يكرهها، فقال لي: طلقها، فأبيت، فأتى عمر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذكر ذلك له، فقال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "طلقها". رواه الترمذي وأبو داود. قوله: (طلقها) إن كان الحق في جانب الوالدين فطلاقها واجب؛ للزوم العقوق، وإن كان في جانب المرأة؛ فإن طلقها لرضا الوالدين فهو جائز."

(كتاب الأداب،باب البروالصلة،231/8،ط:دار النوادر)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

 "عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك. (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق (وإن أمراك أن تخرج من أهلك) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج:1، ص: 132ط:دارالفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"اعلم أن المحرمات أنواع النوع الأول المحرمات بالنسب وهن أنواع فروعه وأصوله وفروع أبويه وإن نزلوا وفروع أجداده وجداته إذا انفصلوا ببطن واحد، والنوع الثاني: المحرمات بالمصاهرة، وهن أنواع أربعة فروع نسائه المدخول بهن وأصولهن وحلائل فروعه وحلائل أصوله والنوع الثالث المحرمات بالرضاع وأنواعهن كالنسب والنوع الرابع حرمة الجمع، وهي أنواع حرمة الجمع بين المحارم، وحرمة الجمع بين الأجنبيات كالجمع بين الخمس أو بين الحرة والأمة، والحرة متقدمة، والنوع الخامس: المحرمة لحق الغير كمنكوحة الغير ومعتدته والحامل بثابت النسب، والنوع السادس المحرمة لعدم دين سماوي كالمجوسية والمشركة، والنوع السابع المحرمة للتنافي كنكاح السيدة مملوكها."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ١٠١/٢، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں