بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1446ھ 24 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کی عدت کا نفقہ


سوال

اگر مطلقہ عورت عدت میں ہو تو اس کا نان و نفقہ کس پر ہوگا؟ اور کتنا نان و نفقہ ہوگا ؟ہر مہینہ دیا جائے  گا یاسب ایک ساتھ دیا جا سکتا ہے؟

جواب

طلاق  کے بعد عدت مکمل ہونے تک مطلقہ بیوی کو رہائش فراہم  کرنا  اور  اس کے نفقہ کا انتظام کرنا شوہر پر لازم ہوتا ہے، پس  طلاق  کے بعد اگر شوہر مطلقہ  بیوی کو رہائش  فراہم نہ کرتے ہوئے اسے میکے بھیج دے، تو اس صورت میں بھی نفقہ کی فراہمی  شوہر پر لازم ہوتی ہے، تاہم طلاق کے بعد اگر مطلقہ بیوی شوہر کی جانب سے فراہم کردہ رہائش گاہ پر سے چلی جائے، تو اس صورت میں وہ نفقہ کی حق دار نہیں ہوتی، یہاں تک کہ شوہر کی جانب سے فراہم کردہ رہائش گاہ واپس آجائے۔

مطلقہ  بیوی کو مکمل عدت کا نفقہ یکبارگی بھی دیا جا سکتا ہے، اور ماہوار، اور ہفتہ وار بھی دیا جا سکتا ہے، نیز نفقہ کی مقدار کے تعین  میں شوہر اور بیوی کی حیثیت کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا جائے گا، یعنی شوہر کی  وسعت اور عورت کی ضرورت  کے بقد ر نان نفقہ واجب ہو گا، لہٰذا شوہر کی آمدنی اور عورت کے ضروری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے خرچہ متعین کرلیا جائے،

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان ... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية . ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ...  وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة،  ج:1/ 558، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) 

(قوله وتجب لمطلقة الرجعي والبائن) كان عليه إبدال المطلقة بالمعتدة؛ لأن النفقة تابعة للعدة، وقيد بالرجعي والبائن احترازا عما لو أعتق أم ولده فلا نفقة لها في العدة كما في كافي الحاكم، وعما لو كان النكاح فاسدا ففي البحر لو تزوجت معتدة البائن وفرق بعد الدخول فلا نفقة على الثاني لفساد نكاحه ولا على الأول إن خرجت من بيته لنشوزها. وفي المجتبى: نفقة العدة كنفقة النكاح.

وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود، وأطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث أو أقل كما في الخانية."

(کتاب الطلاق،باب النفقۃ،ج3،ص609،ط؛سعید)

البحر الرائق  ميں  هے:

"المعتدة إذا خرجت ‌من ‌بيت ‌العدة تسقط نفقتها ما دامت على النشوز فإن عادت إلى بيت الزوج كان لها النفقة و السكنى، ثم الخروج عن بيت العدة على سبيل الدوام ليس بشرط لسقوط نفقتها فإنها إذا خرجت زمانا وسكنت زمانا لاتستحق النفقة."  

(کتاب الطلاق، باب النفقة ،ج:4/ 217،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں