ایک طلاق یافتہ عورت جس کی ایک بیٹی بھی ہے، اب وہ دوسری شادی کرنا چاہ رہی ہے، مگر اس کے گھر والے( والدین ) اس کواجازت نہیں دے رہے ہیں، سوال یہ ہے کیا وہ اپنے گھروالوں ( والدین ) کی اجازت کے بغیر شادی کرسکتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مطلّقہ خاتون ( عدّت مکمل ہونے کے بعد ) دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کی بہتر صورت یہی ہے کہ وہ اپنے والدین کو اعتماد میں لے کر ان کے مشورہ سے نکاح کرے، اور عورت کی طرف سے اس کے محارم میں سے کوئی وکیل بن کر ایجاب یا قبول کرے، نیز ایسی صورت میں والدین کو بھی چاہیے کہ وہ کسی شرعی وجہ کے بغیر مطلّقہ کے دوسری جگہ نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں، شریعت مطہرہ میں اس سے منع فرمایا گیا ہے، قرآن مجید میں ہے:
{وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} [البقرة: 232]
ترجمہ :"اور جب تم ( میں ایسے لوگ پائے جائیں کہ وہ) اپنی بیبیوں کو طلاق دیدیں پھر وہ عورتیں اپنی میعاد (عدت) بھی پوری کرچکیں تو تم ان کو اس امر سے مت رو کو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرلیں جبکہ باہم سب رضامند ہوجاویں قاعدے کے موافق، اس (مضمون) سے نصیحت کی جاتی ہے اس شخص کو جو کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو، یہ (اس نصیحت کا قبول کرنا) تمہارے لیے زیادہ صفائی اور زیادہ پاکی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔"
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"مطلقہ عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی کرنے سے بلاوجہ شرعی روکنا حرام ہے:
دوسری آیت میں اس ناروا ظالمانہ سلوک کا انسداد کیا گیا ہے جو عام طور پر مطلقہ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ان کو دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے، پہلا شوہر بھی عموماً اپنی مطلقہ بیوی کو دوسرے شخص کے نکاح میں جانے سے روکتا اور اس کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے اور بعض خاندانوں میں لڑکی کے اولیاء بھی اس کو دوسری شادی کرنے سے روکتے ہیں اور ان میں بعض اس طمع میں روکتے ہیں کہ اس کی شادی پر ہم کوئی رقم اپنے لیے حاصل کرلیں، بعض اوقات مطلقہ عورت پھر اپنے سابق شوہر سے نکاح پر راضی ہوجاتی ہے مگر عورت کے اولیاء واقرباء کو طلاق دینے کی وجہ سے ایک قسم کی عداوت اس سے ہوجاتی ہے، وہ اب دونوں کے راضی ہونے کے بعد بھی ان کے باہمی نکاح سے مانع ہوتے ہیں، آزاد عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی سے بلاعذر شرعی روکنا خواہ پہلے شوہر کی طرف سے ہو یا لڑکی کے اولیاء کی طرف سے بڑا ظلم ہے، اس ظلم کا انسداد اس آیت میں فرمایا گیا ہے ... اس آیت کے خطاب میں وہ شوہر بھی داخل ہیں جنہوں نے طلاق دی ہے اور لڑکی کے اولیاء بھی، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ {فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی مت روکو مطلقہ عورتوں کو اس بات سے کہ وہ اپنے تجویز کیے ہوئے شوہروں سے نکاح کریں خواہ پہلے ہی شوہر ہوں جنہوں نے طلاق دی تھی یا دوسرے لوگ، مگر اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی گئی {اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی جب دونوں مرد وعورت شرعی قاعدہ کے مطابق رضامند ہوجائیں تو نکاح سے نہ روکو جس میں اشارہ فرمایا گیا کہ اگر ان دونوں کی رضامندی نہ ہو کوئی کسی پر زور زبردستی کرنا چاہے تو سب کو روکنے کا حق ہے، یا رضامندی بھی ہو مگر شرعی قاعدہ کے موافق نہ مثلاً بلا نکاح آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنے پر رضامند ہوجائیں یا تین طلاقوں کے بعد ناجائز طور پر آپس میں نکاح کرلیں یا ایام عدت میں دوسرے شوہر سے نکاح کا ارادہ ہو تو ہر مسلمان کو بالخصوص ان لوگوں کو جن کا ان مرد وعورت کے ساتھ تعلق ہے روکنے کا حق حاصل ہے، بلکہ بقدرِ استطاعت روکنا واجب ہے۔
(معارف القرآن، 1 /575-576، ط: مکتبہ معارف القرآن )
بہر صورت اگرمطلّقہ خاتون کے والدین کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کو دوسری جگہ نکاح نہ کرنے دیں اور وہ خاتون اپنے والدین کی اجازت کے بغیر کسی شخص سے شرعی طریقہ کے مطابق نکاح کرلیتی ہے تو یہ نکاح درست اور منعقد ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".
(کتاب النکاح، باب الولی، 3/ 55، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144611101826
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن