1۔اگر میاں بیوی دونوں الگ ہونا چاہتے ہوں تو بیوی کو طلاق کے بعد شوہر کیا دے گا؟
2۔جو زیور شوہر کی طرف سے تھا، کیا اس پر بیوی کا حق ہوگا ؟
3۔بچوں کی تربیت کے لیے آمدنی کا کتنا حصہ دے گا جب کہ بچے بیوی کے پاس ہوں ؟
4۔اگر کوئی پراپرٹی اس کے نام سے بک کی تھی لیکن ابھی قبضہ نہیں ملا تو کیا وہ بھی دینا ہوگی ؟
1۔صورتِ مسئولہ میں طلاق کی صورت میں عورت کے لئے عدت کا نفقہ اور رہائش دینا شوہر کے ذمہ ہے، اگر عورت شوہر کے گھر ازخود عدت نہیں گزارتی تو پھر عدت کا نفقہ بھی شوہر پر لازم نہیں ہو گا ، نیز اگر مہر بھی اب تک ادا نہ کیا ہو تو شوہر پر اس کی ادائیگی بھی لازم ہے۔
2۔لڑکے والوں کی طرف سے جو عام استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، یہ سب لڑکی ہی کی ملکیت ہیں۔البتہ لڑکی کو نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ:
اگر زیورات دیتے وقت سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ، گفٹ اور مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔
3۔بچوں کا نان و نفقہ اور اخراجات شرعاً بچوں کے والد کے ذمہ ہیں۔ اگر بچہ ہے تو بالغ ہونے اور کمانے کے قابل ہوجانے تک، اور اگر بیٹی ہے تو اس کی شادی ہونے تک اخراجات باپ پر لازم ہیں۔ باقی اخراجات کے تعین کے لئےمناسب ہے کہ دونوں خاندانوں کے معزز اور سمجھ دار بزرگ افراد کو بٹھا کر بچوں کے ضروری اخراجات ، ان کی تعلیم وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئےماہانہ خرچہ طے کرلیا جائے۔
4۔اگر پلاٹ بیوی کو مالکانہ طور پر ہبہ (گفٹ) کیا ہے اور فائل بھی اس کے نام سے بنوالی تو یہ پلاٹ بیوی کا ہوگا اور بقیہ اقساط کی ادائیگی اسی پر لازم ہوگی(علیحدگی کی صورت میں)، اور اگر صرف اس کے نام سے خریدا ہے اور اس کو ہبہ نہیں کیا صرف اس کے نام سے بُک کرایا ہو تو پھر یہ پلاٹ شوہر کا ہی ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة."
(609/3، سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الاحتباس قائم."
(545/1، رشیدیہ)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".
(153/3، سعيد)
وفیہ ایضا۔۔
"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."
(157/3، سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".
(327/1، رشيديه)
وفیہ ایضا:
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
(378/4، رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100211
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن