آپ نے پہلے طلاق کے مسئلہ میں رہنمائی فرمائی اور جیسے کے آپ نے فرمایا طلاق واقع ہو چکی ہے تو :
1_اب کیا بیٹی کو احساس محرومی سے بچانے کے لیے دو گھر اکٹھے لے کے درمیان میں دیوار قائم کر کے رہنا شریعت کی رو سے درست ہو گا تا کہ بچی جب چاہے دونوں سے محبت لے سکے؟
2_اور دوسرا سوال کہ کیا مطلقہ کا دوسری شادی کرنا ضروری ہے؟ اگر وہ اپنی باقی زندگی دین کے کاموں اور اپنے کلینک اور بچی کی اچھی تربیت پر گزارے، اس میں رہنمائی فرمادیجیے کچھ اساتذہ ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ آپ عدت مکمل ہوتے ہی شادی کرلیں بس! تو کیا شریعت ایسی زندگی گزرانے کی اجازت دیتی ہے۔
1۔میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بعد بیٹی کے خاطر دونوں دو علیحدہ علیحدہ برابر گھروں میں رہ سکتے ہیں،لیکن طلاق کے بعد سابقہ شوہر سائلہ کے لیے اجنبی ہے اس لیے آمد ورفت اور بات چیت میں عام اجنبی کی طرح احتیاط ملحوظ رہے ۔
2۔نکاح کرنا بہر حال بہتر اور افضل ہے،لیکن اگر سائلہ بیٹی کی پرورش کی خاطر فی الحال نکاح کرنا نہیں چاہتی اور صبر وعفت کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے تو نکاح نہ کرنے میں بھی شرعا کوئی گناہ نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء أو بحائل،
قوله أو بحائل) قال في القنية: سكن رجل في بيت من دار وامرأة في بيت آخر منها ولكل واحد غلق على حدة، لكن باب الدار واحد لا يكره ما لم يجمعهما بيت اهـ ورمز له ثلاثة رموز، ثم رمز إلى كتاب آخر هي خلوة فلا تحل ثم رمز ولو طلقها بائنا، وليس إلا بيت واحد يجعل بينهما سترة لأنه لولا السترة تقع الخلوة بينه وبين الأجنبية، وليس معهما محرم فهذا يدل على صحة ما قالوه اهـ لأن البيتين من دار كالسترة بل أولى."
(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج6،ص368،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100510
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن