بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کا اپنی مرضی سے شادی کرنا


سوال

ایک مطلقہ عورت جو اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہو اور اس کے گھر والے مثلاً بھائی بہن اور والدین اس کی شادی میں راضی نہ ہوں تو کیا وہ عورت اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے؟ اور اس عورت کے ہاں دو بچے پہلی شادی سے موجود ہیں، آیا اس پر کوئی پابندی یا شرائط لاگو ہوتی ہیں؟

جواب

مذکورہ مطلقہ عورت اپنی  عدت گزارنے کے بعد، دینی، اخلاقی اور پیشہ کے لحاظ سے اپنے ہم سر سے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کر سکتی ہے، البتہ اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنا اچھا نہیں ہے،  لہٰذا بہتر یہ ہے کہ والدین کو راضی کرکے ہی  نکاح کرے اور  اگر والدین راضی نہ ہوں تو بھی نکاح جائز ہوگا۔

باقی جو دو بچے پہلے سے موجود ہیں، ان سے متعلق شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد لڑکے کی پرورش کا حق سات سال کی عمر  تک اور لڑکی کی نو سال کی عمر تک ماں کو ہوتا ہے اور سات سال کی عمر کے بعدبیٹے اور نو سال کے بعد  بیٹی کی تربیت کا حق باپ کو ہوتا ہے، لہذا اگر مطلقہ اس عمر تک بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہے تو اسے حق ہوگا، البتہ اگر مطلقہ ان بچوں کے غیر محرم سے نکاح کرلے تو اسے بچوں کی پرورش کا حق نہیں رہے گا، بلکہ پھر مطلقہ کی ماں (بچوں کی نانی) کو مذکورہ عمر تک پرورش کا حق ہوگا، اس کے بعد شوہر کا بچے لینے کا حق ہوگا۔

اگر مطلقہ اور اس کے سابقہ شوہر کا کسی ایک کے پاس بچے رکھنے پر اتفاق ہوجائے تو وہی صورت اختیار کرلی جائے، بصورتِ دیگر اوپر مذکورہ قاعدے کے مطابق عمل کیا جائے۔ بہرحال اگر سابقہ شوہر بچے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا اور مطلقہ ہی بچوں  کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے تو بھی شرعاً اسے اجازت ہے کہ وہ والدین کو راضی کر کے دوسری شادی کر لے، اس میں شرعاً  کوئی حرج نہیں، اور بچوں کا نان ونفقہ بہرصورت شوہر  ہی پر (بچوں کے والد ) ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 542):

والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين.

وفيه أيضاً:

"ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة".

(1/563، الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي نَفَقَةِ الْأَوْلَاد، ط: رشیدیة)

وفيه أيضاً:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". (١/ ٥٦١)

و فيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں