بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ حائضہ کے دوسرے نکاح کے لیے عدت تین ماہواریاں گزرنا ضروری ہے


سوال

ایک لڑکی کو مورخہ 15 / 5 / 22  کو تین طلاقیں ہوئیں، اور مورخہ 26 / 8 / 22 کو ایک دوسرے شخص سے نکاح ہوا، یعنی عدت کے بعد تین ماہ دس دن کے بعد نکاح ہوا، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ نکاح شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی عدت تین ماہ دس دن نہیں ہے ،بلکہ تین ماہواریاں گزارنا  ضروری ہے،لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر مطلقہ عورت کی عدت مذکورہ مدت میں پوری ہو گئی تھی، یعنی تین ماہواریاں گزر گئی تھیں، اور اس کے بعد دوسری جگہ نکاح ہوا ہے ، تو ایسی صورت میں مذکورہ نکاح شرعاً درست ہے، اور اگر عدت یعنی تین ماہوایاں نہیں گزری تھیں تو ایسی صورت میں دوسری جگہ کیا گیا نکاح شرعاً درست نہیں، اور نہ ہی ساتھ رہنا جائز ہو گا،بلکہ سابقہ عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔

تحفة الفقہاء میں ہے:

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن }."

( كتاب الطلاق، باب العدة (2/ 244، 245)،ط. دار الكتب العلمية،بيروت )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم السادس: المحرامات التی یتعلق بھا حق الغیر، ج: 1، ص: 280، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"عدت ختم ہونے سے پہلے نکاح درست نہیں، ناقابلِ اعتبار ہے...ایسے نکاح سے میاں بیوی کا رشتہ قائم نہیں ہوتا، ان کو الگ ہوجانا چاہیے، ساتھ رہنا حرام ہے۔۔۔الخ۔"

(کتاب النکاح، محرمات کا بیان، ج: 6، ص: 195، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں