بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ عدت کہاں گزارے گی؟


سوال

میری بہنوی کا گھر مانسہرہ میں ہے اور وہی مانسہرہ میں ہمارے تایا، تائی بھی رہتے ہیں اور بھائی بہنیں کراچی میں رہائش پذیر ہیں، ا ب میری بہن کوطلاق ہونے والی ہے تو طلاق کے بعد میری بہن عدت کہاں گزاری گی؟ مانسہرہ میں شوہر کے گھر؟ یا تایا کے گھر؟ یا کراچی میں بہن بھائی میں سے کسی ایک کے گھر؟

میری والدہ کی خواہش ہے کہ  میرے گھر میں عدت گزارے، جب کہ میری دو بہنوں کے الگ الگ گھر ہے، ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ عدت ان کے گھر گزارے، لیکن میں اپنی اس بہن سے ناراض ہوں، جس کی وجہ سے میں اسے اپنے گھر رکھنا نہیں چاہتا، بس والدہ کی خواہش ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ میری بہن عدت کہاں گزارے گی؟        

جواب

صورت مسئولہ میں  سائل کی بہن طلاق کے بعدشوہر کے  گھر میں عدت گزارے گی،یعنی جس گھر میں وہ طلاق کے وقت رہائش پذیر تھی اسی گھر میں رہے گی، بلاضرورت شدیدہ عدت گزارنے کے لیے بہن بھائیوں کے گھر جانا یا تایا کے گھر جانا شرعا ناجائز ہے، ہاں اگر اشد ضرورت ہو، مثلا :گھر منہدم ہوجائے، یا ورثہ عورت کو گھر سے نکال دے، یا اس کی جان، مال ، عزت خطرہ میں ہوں تو ایسی صورت میں وہ قریب ترین دوسری جگہ منتقل ہوسکتی ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌وتعتدان في بيت وجبت فيه إلا أن تخرج أو ينهدم) أي تعتد المتوفى عنها زوجها إن أمكنها أن تعتد في البيت الذي وجبت فيه العدة بأن كان نصيبها من دار الميت يكفيها أو أذنوا لها في السكنى فيه، وهم كبار... وقوله إلا أن تخرج أو ينهدم أي إلا أن يخرجها الورثة يعني فيما إذا كان نصيبها من دار الميت لا يكفيها أو ينهدم البيت الذي كانت تسكنه فحينئذ يجوز لها أن تنتقل إلى غيره للضرورة، وكذا إذا خافت على نفسها أو مالها أو كانت فيه بأجر، ولم تجد ما تؤديه جاز لها الانتقال."

[كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:37،المطبعة الكبرى الأميرية ، القاهرة]

حاشيه ابن عابدين ميں هے:

"(و تعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

[باب العدة، فصل في الحداد،ج:3، ص: 536،ط: دار الفكر بيروت]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں