بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ بیوی اگر دوسری شادی کرے تو پرورش کا حق کس کو ہے؟


سوال

 میری 10 اپریل 2021 کو اپنی بیوی سے علیحدگی ہوگئی تھی، مذکورہ شادی سے میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، میرے  دونوں بچے  فی الحال اپنی ماں کے  پاس رہتے  ہیں، میں ہر ہفتے اپنے بچوں سے ملنے جاتا ہوں اور ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو  بچوں کے  خرچے  کے  پیسے  انکے  ماموں  کے  اکاؤنٹ  میں  ٹرانسفر  کر  دیتا ہوں، میرا  سوال یہ ہے  کہ اگر میری سابقہ بیوی دوسری شادی کرلیتی ہے، تو اس صورت میں بچے کس کے پاس رہیں گے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  میاں بیوی کے درمیان طلاق یاخلع وغیرہ کی صورت میں  علیحدگی کے بعد بچے کی پرورش کاحق اس کی عمر   7 سال ہونے تک اور بچی کی عمر   9 سال  ہونے تک اس کی والدہ کوحاصل ہے ، البتہ اس دوران  اگر بچے کی والدہ کسی ایسی جگہ شادی کرلے جو بچے کے حق میں نامحرم اور اجنبی  ہو، ،تو ایسی صورت میں ماں کا حقِ پرورش ختم ہوکر نانی، دادی،خالہ اور پھوپھی کو بالترتیب حاصل ہوجائے گا ۔

الاختیار لتعلیل المختارمیں ہے:

"قال: (وإذا اختصم الزوجان في الولد قبل الفرقة أو بعدها فالأم أحق) لما روي: «أن امرأة أتت رسول الله - عليه الصلاة والسلام - فقالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وحجري له حواء، وثديي له سقاء، وزعم أبوه أنه ينتزعه مني، فقال - عليه الصلاة والسلام -: " أنت أحق به ما لم تنكحي۔۔۔قال: (ثم أمها ثم أم الأب ثم الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب، ثم الخالات كذلك، ثم العمات كذلك أيضا، وبنات الأخت أولى من بنات الأخ، وهن أولى من العمات، ومن لها الحضانة إذا تزوجت بأجنبي سقط حقها، فإن فارقته عاد حقها، والقول قول المرأة في نفي الزوج، ويكون الغلام عندهن حتى يستغني عن الخدمة، وتكون الجارية عند الأم والجدة حتى تحيض وعند غيرهما حتى تستغني."

(کتاب الطلاق،باب النفقہ،فصل فی الحضانۃ،ج:4،ص:15،ط:مطبعة الحلبي - القاهرة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أہل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ۔ فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم۔۔۔إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى۔۔۔وخالة الأم أولى من خالة الأب عندنا، ثم خالات الأب وعماته على هذا الترتيب كذا في فتح القدير۔۔۔ملخصاً."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشرفی الحضانۃ۔ج:1،ص:541،ط:المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں