بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ عورت سے شادی کرنا اور ان کے بچوں کا حکم


سوال

 ایک مطلقہ خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہوں ،جس کے پہلے شوہر سے دو بیٹے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے، جس پر اس کا پہلا شوہر خوش نہیں ہے، اب میرے لیئے کیا حکم ہے میں یہ بچے اپبے پاس رکھ سکتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

بچوں سے  متعلق شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد لڑکے کی پرورش کا حق سات سال کی عمر  تک اور لڑکی کی نو سال کی عمر تک ماں کو ہے اور سات سال کی عمر کے بعدبیٹے اور نو سال کے بعد  بیٹی کی تربیت کا حق باپ کو  ہے، لہذا اگر مطلقہ اس عمر تک بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہے تو اسے حق ہوگا، البتہ اگر مطلقہ ان بچوں کے غیر محرم سے نکاح کرلے تو اسے بچوں کی پرورش کا حق نہیں رہے گا، بلکہ پھر مطلقہ کی ماں (بچوں کی نانی) کو مذکورہ عمر تک پرورش کا حق ہوگا، اس کے بعد شوہر کا بچے لینے کا حق ہوگا،اور بچوں کا نان ونفقہ بہرصورت شوہر  ہی پر (بچوں کے والد ) ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب  (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى   (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد، زيلعي."

             (باب الحضانة،ج:3، ص:567، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى ‌يحتاج ‌إلى ‌تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف،و عن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية: و هو المعتبر لفساد الزمان."

(باب الحضانة، ج:4،ص:184، ، ط:رشیدیه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144311100471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں