بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ بیوی کو بچوں کے پرورش پر بلا معاوضہ مجبور نہیں کیا جاسکتا


سوال

اگر ایک مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور طلاق کے بعد وہ عورت سے بچے پلوائے اور خرچہ بھی نہ دے جب کہ وہ امیر ہو تو کیا دین میں اس شخص کو  ایسا کرنے کی   اجازت ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق کی وجہ سے جب میاں بیوی کے درمیان علیحدگی ہو جائے، تو ماں لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پرورش میں رکھ سکتی ہے،  لیکن یہ اس کی ذمہ لازم نہیں ہے ،اس لیے  اُس کو اِس ذمہ داری  پر مجبور نہیں کیا جائےگا،  ہاں اگر  دودھ پیتا بچہ، بچی  ہو  اور ماں کے علاوہ کوئی اور دودھ پلانے والی نہیں ہے یا  بچہ کسی اور  کا دودھ نہیں پیتا تو اس صورت میں  بچے کی ماں کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔بہر صورت  بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری   والد پر ہوگی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا   مطلقہ بیوی سے  بچوں کا  پرورش  کرانا  اور اس کو خرچہ نہ دینا جائز نہیں ہے اور نہ شرعاً اس کی اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاضنة أما أو غیرهاأحق به أي بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع، وبه یفتیٰ؛لأنه الغالب.... (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية...(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة،ج:3، ص:566، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا تجبر) من لها الحضانة (عليها إلا إذا تعينت لها) بأن لم يأخذ ثدي غيرها أو لم يكن للأب ولا للصغير مال به يفتى خانية..(قوله: ولا تجبر عليها) أي على الحضانة. والصواب أن يقول: ولا تجبر على الإرضاع...(قوله: ولا تقدر الحاضنة إلخ) اختلف في الحضانة، هل هي حق الحاضنة، أو حق الولد؟ فقيل بالأول فلا تجبر إذا امتنعت ورجحه غير واحد..وعليه الفتوى. وقيل بالثاني فتجبر، واختاره الفقهاء الثلاثة أبو الليث والهندواني وخواهر زاده، وأيده في الفتح بما في كافي الحاكم الشهيد الذي هو جمع كلام محمد من مسألة الخلع المذكورة...قلت: ويؤخذ من هذا التوفيق بين القولين، وذلك أن ما في المحيط يدل على أن لكل من الحاضنة والمحضون حقا في الحضانة، ومثله ما قدمناه عن المفتي أبي السعود؛ فقول من قال " إنها حق الحاضنة فلا تجبر " محمول على ما إذا لم تتعين لها، واقتصر على أنها حقها لأن المحضون حينئذ لا يضيع حقه لوجود من يحضنه غيرها، ومن قال " إنها حق المحضون فتجبر " محمول على ما إذا تعينت واقتصر على أنها حقه لعدم من يحضنه غيرها. والدليل على ذلك أيضا ما مر عن الظهيرية حيث عزي إلى الفقهاء الثلاثة القائلين بالجبر أنها تجبر عندهم إذا لم يوجد غيرها لا إذا وجد."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:559،560، ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع."

(کتابالطلاق، باب النفقة،قبيل مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه، ج:3، ص:612، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہمیں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:560، ط:دارالفكر)

 تبیین الحقائق میں ہے:

‌"لا ‌تجبر الأم على الحضانة في الصحيح لاحتمال عجزها، وهذا لأن شفقتها حاملة على الحضانة، ولا تصبر عنه غالبا إلا عن عجز فلا معنى للإيجاب لوجود الحمل بدونه فلا تجبر عليه."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:47، ط:دار الكتاب الإسلامي)

مجمع الانھرمیں ہے:

"(ومن لها) حق (الحضانة ‌لا ‌تجبر عليها) إن أبت لاحتمال أن تعجز عن الحضانة."

 (كتاب الطلاق، باب الحضانة،ج:1 ص:482 ، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100372

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں