بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کا وضو خانہ میں غسل کرنے کا حکم


سوال

ہمارے محلے کی مسجد میں کچھ لوگ اعتکاف کر رہے تھے وہ لوگ وضو خانہ پر ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے غسل کر رہے تھے،جب میں ان کو غسل کرنے سے منع کیا تو وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم مسجد کے اندر ہی غسل کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں وضو خانہ مسجد کے اندر ہی ہے ،بعض معتکف ایسے بھی تھے جو کہہ رہے تھے کہ ہم دس سال سے اعتکاف کرتے ہیں اور اعتکاف کی حالت میں ہر روز غسل کرتے تھے اور کبھی کسی نے ہمیں غسل کرنے سے منع نہیں کیا ،اور کچھ کا کہنا تھا کہ پاکی اور صفائی جب آدھا ایمان ہے تو ہم جسم کو صاف کرنے کے لئے غسل کرتے ہیں اور اگر ہم غسل نہیں کرتے ہیں تو ہمارا بدن بدبودار ہو جاتا ہے اور ایک شخص کہہ رہے تھے کہ جب ایسا ہے کہ ہم دس دن بغیر غسل کے اعتکاف کریں تو ہم سے ایسا نہیں ہوگا ہم اب اعتکاف ہی نہیں کریں گے ۔

ہمارے یہاں مسجد کے کچھ حصے میں چھت ہے اور کچھ حصے بغیر چھت کے ہے اور وضو خانہ مسجد کے اس حصے میں واقع ہے جہاں چھت نہیں ہے لیکن مسجد کے چہار دیواری کے اندر ہے ۔

۱۔ہمارے یہاں کا وضو خانہ مسجد کے حدود میں داخل ہے یا نہیں؟

۲۔ کیا ہر جگہ کا وضو خانہ مسجد کے حدود سے باہر ہے ؟

۳۔اب سوال یہ ہے کہ کیا معتکف ٹھنڈک کے لئے غسل کر سکتا ہے؟

۴۔اگر ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے غسل کرنے سے منع کرتے ہیں تو کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھنا نہیں چاہتے تو ایسے حالات میں کیا کیا جائے؟

۵۔کیا معتکف کے فوری ضرورت کے لئے غسل خانہ مسجد کے اندر بنایا جاسکتا ہے جیسے پلاسٹک وغیرہ اس طرح بچھا یا جائے کہ پانی مسجد کے حدود سے باہر چلا جائے؟

۶۔معتکف اپنی  مسجد کے اندر ہی جگہ بدل سکتا ہے؟

۷۔تمام معتکف ایک ساتھ افطار اور کھانا وغیرہ مسجد کےاندر رہتے ہوئے کھا سکتے ہیں؟

اعتکاف کے مسائل پر مشتمل کوئی کتاب ہو تو رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرعاً مسجد کا اطلاق صرف مسجد کی چار دیواری ، فرش اور صحن پر ہوتا ہے جو نماز کےلئے مختص ہے، اس کے علاوہ جو مسجد کی زمین کا احاطہ ہے جیسے چار دیواری میں  مستقل وضوخانہ بناہویا کوئی کمرہ وغیرہ بنا ہو وہ حصہ مسجد نہیں کہلاتا، اس لیے معتکف آدمی کا بلاضرورت شرعیہ و طبعیہ مسجد سے نکل کر چاردیواری میں موجود دیگر مقامات (جیسے وضوخانے وغیرہ)  میں جانا جائز نہیں، اگر معتکف وہاں چلا گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

ہمارے ہاں عرف میں مسجد کے تمام احاطہ کو  ”مسجد“ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں مسجد میں ایک حصہ وہ ہوتا ہے جو شرعی مسجد  اور عین مسجد کہلاتا ہے یہ وہ جگہ ہوتی ہے جو   نماز اور سجدہ کے لیے مقرر کی جاتی ہے، یہ حصہ حدودِ مسجد ہوتا ہے۔ اور ایک احاطہ مسجد اور فناءِ مسجد  ہوتا ہے، یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں وضو خانہ ، غسل خانہ ، امام، مؤذن وغیرہ کے کمرے ہوتے ہیں،  اعتکاف میں  معتکف کے لیے شرعی مسجد کی حدود میں رہنا ضروری ہوتا ہے، بغیر طبعی اور شری ضرورت کے اس کے  احاطہ مسجد میں آنے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

۱۔۲۔لہذا صورت مسئولہ میں آپ کی مسجد ، یا دیگر مساجد کاوضو خانہ شرعی مسجد سے باہر ہی شمار ہوتا ہے، چار دیواری میں ہونے کے باوجودبلاضرورت شرعیہ وضوخانے میں جانا معتکف کے لیے جائز نہیں ،اگر بلاضرورت معتکف وہاں گیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا،کیوں  کہ ٹھنڈک کےلئے غسل کرنا ضرورت شرعیہ یا طبعیہ میں داخل نہیں۔

اس لیے جو معتکفین غسل تبرید کے لیے وضو خانے میں گئے ہیں ان کا اعتکاف فاسد ہوچکا ہے،  معتکفین کا یہ کہنا کہ ہمیں کسی نے منع نہیں کیا ،اس سے ان کا غسل تبرید کے لیے وضو خانے میں جانا ،جائز نہیں ہوتا، معتکفین کو اعتکاف سے قبل ہی اعتکاف سے متعلق شرعی مسائل اور شرعی مسجد کی حدود سے متعلق آگاہی حاصل کرلینی چاہیے۔

۳۔مسنون اعتکاف میں گرمی کی وجہ  سے مسجد سے باہر نکل کر معتکف کے لیے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنا جائز نہیں ہے, اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا، اگر گرمی کی وجہ سے  غسل کی شدید ضرورت ہوتو  مسجد میں بڑا برتن رکھ کر اس میں بیٹھ کر غسل کرلے اس طور پر کہ  استعمال کیا ہوا پانی  مسجد میں بالکل نہ گرے، یا تولیہ بھگو کر نچوڑ کر  بدن پر مل لے، اس سے بھی ٹھنڈک حاصل ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں  مسجد انتظامیہ پورٹ ایبل واش روم کا انتظام بھی کرسکتی ہے کہ اسے مسجد کے اندر رکھ دیا جائے اور پانی مسجد سے باہر گرے، لیکن شدید ضرورت کے بغیر اس کے استعمال کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔ اور جہاں مسجد کے آداب اور تقدس کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو وہاں پورٹ ایبل واش روم سے بھی اجتناب کیا جائے۔

حاصل یہ ہے کہ  ٹھنڈک کے لیے غسل کی نیت سے مسجد سے باہر جانا معتکف کے لیے جائز نہیں ہے۔

۴۔اعتکاف ایک مسنون عمل ہے، اور شریعت کے حکم موافق اعتکاف میں بیٹھنے سے ہی اعتکاف کی سنت ادا ہوسکتی ہے، اعتکاف میں بیٹھنے والے افراد کو شرعی مسائل سے آگاہ کردیا جائے تو ان شاء اللہ اس طرح کی نوبت نہیں آئے گی،اور اگر گرمی کی وجہ سے غسل تبرید کی حاجت ہو تو نمبر۳ میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق انتظام کیاجاسکتا ہے۔

۵۔نمبر ۳ کے تحت اس کی تفصیل لکھی جاچکی ہے۔

۶۔معتکف نے اعتکاف کے لیے مسجد میں جو جگہ مقرر کی تھی، اعتکاف ختم ہونےتک اسی جگہ میں بیٹھنا لازم نہیں، بلکہ پوری مسجد میں جہاں بھی چاہے رہ کر اعتکاف کرسکتا ہے، شرعاً کوئی حرج نہیں ۔ 

۷۔معتکفین کے لیے اعتکاف کی حالت میں مسجد میں اکٹھے کھانا،کھانا اور افطاری کرنا جائز ہے۔

اعتکاف کے مسائل  کے لیے "اعتکاف کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا" (از مفتی محمد انعام الحق  قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ)  سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے :

"ما يعتبر من المسجد وما لا يعتبر :  اتفق الفقهاء على أن المراد بالمسجد الذي يصح فيه الاعتكاف ، ما كان بناء معدا للصلاة فيه .أما رحبة المسجد ، وهي ساحته التي زيدت بالقرب من المسجد لتوسعته ، وكانت محجرا عليها ، فالذي يفهم من كلام الحنفية والمالكية والحنابلة في الصحيح من المذهب أنها ليست من المسجد ، ومقابل الصحيح عندهم أنها من المسجد ، وجمع أبو يعلى بين الروايتين بأن الرحبة المحوطة وعليها باب هي من المسجد . وذهب الشافعية إلى أن رحبة المسجد من المسجد ، فلو اعتكف فيها صح اعتكافه ، وأما سطح المسجد فقد قال ابن قدامة : يجوز للمعتكف صعود سطح المسجد ، ولا نعلم فيه خلافا .أما المنارة فإن كانت في المسجد أو بابها فيه فهي من المسجد عند الحنفية والشافعية والحنابلة .وإن كان بابها خارج المسجد أو في رحبته فهي منه ، ويصح فيها الاعتكاف عند الشافعية .وإن كان بابها خارج المسجد فيجوز أذان المعتكف فيها ، سواء أكان مؤذنا أم غيره عند الحنفية ، وأما عند الشافعية فقد فرقوا بين المؤذن الراتب وغيره ، فيجوز للراتب الأذان فيها وهو معتكف دون غيره ، قال النووي : وهو الأصح."

(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج:۵،ص؛۲۲۳،۲۲۴،ط:وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیۃ الکویت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف ، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء ، كذا في السراجية."

(الفتاوی الہندیۃ، ج:۵،ص؛۳۲۱،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وإن خرج من غير عذر ساعة فسد اعتكافه في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، كذا في المحيط. سواء كان الخروج عامدًا أو ناسيًا، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم، الباب السابع في الإعتكاف،ج:۱،ص:۲۱۲،ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310101272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں